کالمزحیدر جاوید سید

عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور تیسرا راستہ……حیدر جاوید سید

مخدوم صاحب چبائی اردو کو انگریزی کا تڑکہ لگاکر بات کرچکے تو ایک آڈیو تحریک انصاف کے وفد کو سنوائی گئی اس آڈیو میں ایسا کچھ تھا کہ مخدوم سمیت پانچ رکنی وفد کی حالت سیٹی گم ہوگئی والی ہوگئی

ہمارے بہت سارے دوستوں اور سماجی تعلق داروں کا خیال ہے کہ اس وقت عمران خان اور تحریک انصاف پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا چہرہ مہرہ ہیں اس لئے اختلافات کے باوجود ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ یہ دوست اور تعلق دار اپنے اس موقف کے حق میں جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں اہم ترین یہ ہے کہ
’’آپ دیکھ لیجئے عمران خان طویل عرصے سے جیل میں ہے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ڈٹ کر کھڑا ہے ” ۔ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ "اس وقت عمران خان اور تحریک انصاف کی مخالفت کرنا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرنا ہے ” ۔
اتفاق سے میں ان کی دونوں باتوں سے متفق نہیں ہوں۔ اولاً اس سے کہ عمران خان ڈٹ کر کھڑا ہے ثانیاً یہ کہ اس کی مخالفت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ہے۔ عمران خان ڈٹ کر نہیں کھڑا بلکہ وہ پہلے دن سے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بہتر بنانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔
یاد رہے کہ یہ پہلا دن وہ ہے جب ہمارے ملتانی مخدوم شاہ محمود قریشی کی قیادت میں دسمبر 2022ء میں پی ٹی آئی کے پانچ رکنی وفد نے نئے آرمی چیف سے ملاقات کر کے عمران خان کے بعض بیانات و تقاریر کی وضاحت پیش کی ان سطور میں اُنہی دنوں اس ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے عرض کا تھا کہ
’’ مخدوم صاحب چبائی اردو کو انگریزی کا تڑکہ لگاکر بات کرچکے تو ایک آڈیو تحریک انصاف کے وفد کو سنوائی گئی اس آڈیو میں ایسا کچھ تھا کہ مخدوم سمیت پانچ رکنی وفد کی حالت سیٹی گم ہوگئی والی ہوگئی۔
اپریل 2022ء میں جب عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب سے رخصت ہوئے تو ایک طرف وہ اس وقت کے آرمی چیف وغیرہ اور امریکہ کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین پر گرج برس رہے تھے دوسری جانب انہوں نے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے توسط سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کم از کم تین ملاقاتیں پھڑکائیں ان میں سے دو ملاقاتیں ایوان صدر میں ہوئیں اور تیسری ملاقات آبپارہ کے قریب ایک دفتر میں۔ ان ملاقاتوں کا ’’صدقہ‘‘ ہی تھا کہ جولائی 2022ء میں منعقد ہنے والے ضمنی انتخابات میں جنرل باجوہ کے ماتحت اداروں نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے لئے دائو پیچ کھیلے
یہ دو تین مثالیں ان دنوں کی ہیں جب عمران خان تلوار بے نیام بنے اپنے ہر مخالف اور امریکہ کی گردن مارنے پر تلے ہوئے تھے۔
وہ اب بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہی معاملہ کرنا چاہتے ہیں ’’اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ ملک کے لئے جو ان کے خیال میں تباہ ہوچکا” اور ان کے دیوانگان کے مطابق تباہ شدہ پاکستان کو صرف عمران خان ہی اپنے قدموں پر کھڑا کرسکتے ہیں۔
کیسے جیسے انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری مہینوں میں آئی ایم ایف سے 2021ء میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دی تھی اور دیوانگان نے آسمان سر پر اٹھالیا تھا ؟
آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں عرض کردوں ایک یہ کہ دسمبر 2022ء میں پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رابطے اور پانچ رکنی وفد کی ملاقات میں آڈیو سن کر جو مشورہ دیا گیا وہ تقریباً یہی تھا کہ زبان و بیان پر کنٹرول سکھائیں اپنے لیڈر کو۔
ثانیاً یہ کہ میں روز اول سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مخالف تھا پی ڈی ایم کے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں تواتر کے ساتھ ان سطور میں اپنی رائے عرض کرتا رہا باردیگر عرض کئے دیتا ہوں میرا خیال تھا کہ اپریل 2022 ء میں تحریک عدم اعتماد سے عمران خان کو ہٹانے کا مناسب وقت نہیں تھا کچھ انتظار کرلیا جاتا تو بجٹ کے مرحلے میں تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے منہ کے بل گرنے کا سامان ازخود ہوجاتا۔ پی ڈی ایم والے جمع پی پی پی ہمیں ایک سازش کی کہانی سناتے تھے کہ جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور عمران خان 2030ء تک مسلط رہنے کا منصوبہ بناچکے ہیں تحریک عدم اعتماد اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے ہے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف کے دو صوبائی وزرائے خزانہ (خیبر پختونخوا اور پنجاب کے) نے آئی ایم ایف کو پی ڈی ایم حکومت کے خلاف خطوط لکھے یہ خطوط کس سیاسی اخلاقیات کے عین مطابق تھے؟
تحریک انصاف کے ساتھ یقیناً زیادتیاں ہوئیں خصوصاً فروری 2024ء کے عام انتخابات کے حوالے سے مگر کیا ایسی ہی زیادتی 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے حق میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے نہیں کی تھی ؟
یہاں ہم اس پر بحث نہیں اٹھارہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو 22 برس کی جدوجہد سے حاصل وصول کیا ہوا اور پھر جب 2011ء میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اسے گود لے لیا تو کیسے دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوئی۔
عمران خان اب بھی سیاسی مخالفین سے بات نہیں کرنا چاہتے وہ خیبر پختونخوا کے انتخابی نتائج کو آبِ زم زم سے دھلا ہوا پاک صاف جانتے ہیں لیکن باقی کے تین صوبوں کے انتخابی نتائج ان کے نزدیک فارم 47 کے مرہون منت ہیں گزشتہ سوا سال سے ان کا یہی بیانیہ ہے۔
وہ دوسروں (اپنے مخالفوں) پر چور لٹیرا کرپٹ وغیرہ ہونے کے الزامات لگاتے تھے پھر ایک دن بولے مجھے ایجنسیوں نے کرپشن کے ثبوت دیکھائے تھے۔ اب وہ خود ایسے ہی الزامات کی نہ صرف زد میں ہیں بلکہ ان میں سے بعض کی وجہ سے سزا یافتہ بھی لیکن وہ اوران کے حامی ان مقدمات اور سزائوں کو انتقام قرار دیتے ہیں۔
ان کے حامیوں اور خود ان کا بھی یہی خیال ہے کہ آج جو ان کے ساتھ نہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کا ٹائوٹ ہے۔ دوسری جانب اسی اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ طے کرانے کے لئے وہ اپنے بعض ساتھیوں اور وچولوں کو استعمال کررہے ہیں ان وچولوں میں ایک عظیم جمہوریت پسند صحافی و اینکر بھی شامل ہے ۔
مجھے معاف کیجئے گا عمران خان کی حمایت یا انہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا دیوتا مان لینے پر جی آمادہ نہیں ہوتا اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اب بھی ” اسی عطار کے لونڈے ” سے دوا لینے کو ہی مرض کا علاج سمجھتے ہیں۔
عمران خان کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی کسی طرح ممکن نہیں۔ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ اصل طاقت ہے اسی نے حقیقی جمہوری نظام پنپنے نہیں دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کا راج پاٹ پابند جمہوریت یعنی طبقاتی نظام سے چلتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو لوگوں کے بنیادی حقوق، شہری و سیاسی آزادیوں مقامی وسائل پر مقامیوں کے حق، انصاف و مساوات سے کبھی بھی رتی برابر دلچسپی نہیں رہی
بلکہ اس کےپیشِ نظر دو ہی کام ہوتے ہیں اولاً اپنی گرفت مضبوط رکھے ثانیاً ملکی وسائل کا زیادہ حصہ سکیورٹی اسٹیٹ کے لئے مختص کروائے۔
اپنے اپنے دور میں طبقاتی نظام میں ملازمت کرنے والوں نے یہ کام خوشی سے کئے اب بھی ایمان کے آٹھویں رکن کی طرح انجام دیئے جارہے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار کی وجہ سے ریاست اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی کی خلیج ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گہری ہوتی جارہی ہے۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور سرائیکی وسیب میں اس بداعتمادی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل گھمبیر ہورہے ہیں۔
وسطی اور بالائی پنجاب میں گو سب اچھا نہیں ہے لیکن ردعمل دوسری اقوام کے علاقوں جیسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب کے دوست بلوچوں کے مسئلہ کو زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی بجائے غیرریاستی عسکریت پسندوں کے جرائم سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ہماری رائے میں ہر دو طرح کی عسکیت پسندی عوام دشمنی ہے۔
پنجاب کو اس پر مکالمہ کا آغاز کرناہوگا کہ بلوچستان میں غیر ریاستی عسکریت پسندی نے جنم کیوں لیا ؟،
ہم اس پر بات کررہے تھے کہ کیا عمران خان سے اختلاف کی وجہ یہ بنیاد فراہم کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی جائے؟ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
ایسا سمجھنے کے لئے عمران خان اور ان کے حامیوں کے طرزعمل اور بالخصوص سیاسی مخالفین بارے سطحی آراء کو پیش نظر رکھنا ہوگا
صاف سیدھے لفظوں میں یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ذہنی طور پر تسلیم کرلیتے ہیں کہ سکیورٹی اسٹیٹ حرف آخر ہے۔
جبکہ اس طالب علم کی رائے میں سکیورٹی اسٹیٹ اور اس کی چھتر چھایہ میں چلتا نظام دونوں عوام کی توہین ہیں اس لئے عوام کی توہین کے جرم سے دامن بچاکر زندہ رہنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ میں یہی کررہا ہوں

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button