
بھارتی سپریم کورٹ نے اردو زبان کے خلاف درخواست مسترد کر دی
بگاڑے نے اردو زبان کے استعمال کے خلاف پہلے ایک نچلی عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور پھر وہ ممبئی ہائی کورٹ پہنچی تھیں
جسٹس سدھانشو دھولیا اور کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ختم کرنے سے انکار کر دیا، جس میں اردو زبان کے استعمال کو درست قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ قانونی طور پر سائن بورڈز میں اردو کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
ریاست مہاراشٹر کے ضلع اکولا سے تعلق رکھنے والی ایک سابق کونسلر ورشتائی سنجے بگاڑے نے میونسپل کونسل کے بورڈز پر مراٹھی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ میونسپل کونسل کا کام صرف مقامی زبان مراٹھی میں ہی ہو سکتا ہے اور اردو زبان کا استعمال غلط ہے، یہاں تک کہ سائن بورڈز پر بھی اردو نہیں لکھی جانا چاہیے۔
بگاڑے نے اردو زبان کے استعمال کے خلاف پہلے ایک نچلی عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور پھر وہ ممبئی ہائی کورٹ پہنچی تھیں۔ تاہم ہر جگہ ناکامی کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جس پر اب یہ تاریخی فیصلہ سنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے میں اردو زبان کو بھارت میں ’’گنگا جمنا کی تہذیب‘‘ کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’زبان خیالات کے تبادلے کا ایک ذریعہ ہے، جو مختلف خیالات اور عقائد رکھنے والے لوگوں کو قریب لاتی ہے اور اسے ان میں تقسیم کا سبب نہیں بننا چاہیے۔‘‘
سپریم کورٹ نے کہا کہ زبان کو کمیونٹی کی ثقافتی اور تہذیبی ترقی کے نشان کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور ’’اردو کا معاملہ بھی یہی ہے، جو ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں میں پائی جانے والی جامع ثقافت کی اقدار پر مبنی ہے۔‘‘

عدالت نے کہا، ’’اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ اردو ہندوستان کے لیے اجنبی ہے۔ یہ رائے غلط ہے کیونکہ مراٹھی اور ہندی کی طرح ہی اردو بھی ایک ہندوستانی زبان ہے۔ اس زبان نے اسی سرزمین پر جنم لیا۔ صدیوں کے عرصے میں اس زبان نے پہلے سے کہیں زیادہ نکھار حاصل کیا اور بہت سے معروف شعراء کی پسندیدہ زبان بن گئی۔‘‘
عدالت نے کہا، ’’ہماری غلط فہمیوں اور شاید اس زبان کے خلاف ہمارے تعصبات کو بھی ہمت اور سچائی کے ساتھ پرکھنے اور آزمانے کی ضرورت ہے، جو کہ ہماری قوم کا عظیم تنوع ہے۔ ہماری طاقت کبھی بھی ہماری کمزوری نہیں ہو سکتی۔‘‘
عدالت نے کہا کہ اگر میونسپل کونسل کے زیر اثر ’’علاقوں میں رہنے والے لوگ یا لوگوں کا ایک گروپ اردو سے واقف ہیں، تو سرکاری زبان یعنی مراٹھی کے علاوہ کم از کم میونسپل کونسل کے سائن بورڈز پر اردو استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
وسیع تر ثقافتی ورثے کو اپنانے پر زور دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا، ’’آئیے، ہم اردو اور اپنی تمام زبانوں کے دوست بنیں۔‘‘
بھارت میں اردو کی مخالفت
چند روز قبل ریاست اتر پردیش میں حکمران ہندو قوم پسند جماعت بی جے پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اردو کی مخالفت میں کھل کر ریاستی اسمبلی میں آواز اٹھائی تھی۔
البتہ لکھنؤ کی اسمبلی میں اردو زبان کی مخالفت اب کوئی نئی بات نہیں ہے اور ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ کئی بار اردو میں حلف لینے کا مطالبہ کرنے والے ارکان اسمبلی کو اس سے باز رکھنے کی کوشش بھی کی گئی اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقریباﹰ چھ کروڑ ہے۔ یہ دارالحکومت دہلی کے ساتھ ساتھ ملک کی چھ دیگر ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے۔
البتہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار والی بھارتی ریاستوں میں اس وقت اردو بستر مرگ پر ہے۔ حال ہی میں راجستھان میں بی جے پی کی حکومت نے اردو کی جگہ سنسکرت زبان کے ٹیچر بھرتی کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور اب سہ لسانی فارمولے میں اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کر دیا گیا ہے۔
ریاست مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی کی حکومت ایسے 56 دیہات کے نام تبدیل کر رہی ہے، جو اردو میں ہیں۔