مشرق وسطیٰاہم خبریں

غزہ امن معاہدے پر دستخط ہو گئے، لیکن مستقبل پر سوالیہ نشان

اعلامیے کے مطابق، دستخط کرنے والے ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ ''امن، سلامتی اور باہمی خوشحالی کے ایک جامع ویژن کو آگے بڑھائیں گے‘‘

جاوید اختر اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے کے ساتھ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے کے رہنماؤں کے ساتھ غزہ میں پیر کو جنگ بندی معاہدے پر دستخط کو ’مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک شاندار دن‘ قرار دیا۔ اس سے چند گھنٹے قبل اسرائیل اور حماس نے یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ کیا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ یہاں جمع ہونے والے رہنماؤں نے ”وہ حاصل کر لیا ہے جسے سب ناممکن سمجھتے تھے۔‘‘ اور ’’بالآخر، ہمیں مشرقِ وسطیٰ میں امن نصیب ہو گیا ہے۔‘‘

غزہ امن کانفرنس کے دوران انہوں نے مصر، قطر اور ترکی کے رہنماؤں کے ساتھ پیر کے روز اس اعلامیے پر دستخط کیے جو جنگ بندی معاہدے کے ضامن کے طور پر سامنے آئے۔

تقریب میں دنیا کے 20 سے زائد رہنما شریک ہوئے جن میں اردن کے بادشاہ عبداللہ، ترک صدر رجب طیب ایردوآن، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی، فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں، برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف شامل تھے۔

اعلامیے کے مطابق، دستخط کرنے والے ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ ”امن، سلامتی اور باہمی خوشحالی کے ایک جامع ویژن کو آگے بڑھائیں گے‘‘ اور ’’غزہ کی پٹی میں جامع اور پائیدار امن انتظامات کے قیام میں حاصل ہونے والی پیش رفت‘‘ کا خیرمقدم کیا۔

اجلاس سے قبل مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے ٹرمپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں ‘واحد شخصیت‘ قرار دیا جو مشرقِ وسطیٰ میں امن لا سکتے ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی براہِ راست رابطہ نہیں اور دونوں نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

امریکی صدر غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر دستخط شدہ دستاویز دکھاتے ہوئے
ٹرمپ نے کہا کہ شرم الشیخ میں جمع ہونے والے رہنماؤں نے وہ حاصل کر لیا ہے جسے سب ناممکن سمجھتے تھے اور بالآخرمشرقِ وسطیٰ میں امن نصیب ہو گیا ہےتصویر: Evelyn Hockstein/REUTERS

اب بھی کئی رکاوٹیں ہیں

پیر کی رات وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں بشمول فلسطینیوں کے درمیان امن کے آئندہ کے طریقہ کار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی، نہ ہی  اس میں ایک ریاست یا دو ریاستی حل کا کوئی ذکر تھا۔

ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس واپسی کے دوران صحافیوں سے کہا، ”ہم غزہ کی تعمیرِ نو کی بات کر رہے ہیں۔ میں ایک ریاست یا دو ریاستوں کی بات نہیں کر رہے ہیں۔‘‘

لیکن مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا کہ غزہ معاہدہ انسانی تاریخ کے ایک تکلیف دہ باب کو بند کرتا ہے اور دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرتا ہے۔

ممکنہ رکاوٹوں میں سے ایک حماس کا اپنے ہتھیار نہ ڈالنے سے انکار ہے، اور دوسری اسرائیل کی جانب سے غزہ سے مکمل انخلا کی ضمانت نہ دینا ہے۔

پیر کے روز حماس کے ترجمان حازم قاسم نے ٹرمپ اور غزہ معاہدے کے ثالثوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے رویّے کی نگرانی جاری رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ہمارے عوام کے خلاف اپنی جارحیت دوبارہ شروع نہ کرے۔

برطانیہ کے وزیرِاعظم کیر اسٹارمر، فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں، ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن، اٹلی کی وزیرِاعظم جورجیا میلونی اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی شرم الشیخ، مصر میں 13 اکتوبر 2025 کو امن سربراہی اجلاس میں شرکت سے پہلے ملاقات کے دوران
جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق ہونے کے باوجود اگلے مراحل کے بارے میں اب بھی بڑے سوالات باقی ہیں، جن کے باعث دوبارہ لڑائی چھڑنے کا خدشہ ہےتصویر: Eliot Blondet/ABACA/picture alliance

امن کا نیا باب؟

اسرائیل اور حماس پر امریکہ، عرب ممالک اور ترکی نے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ قطر میں ثالثوں کے ذریعے طے پانے والے امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کریں، جو جمعے سے نافذ ہو چکا ہے۔

تاہم، اگلے مراحل کے بارے میں اب بھی بڑے سوالات باقی ہیں، جن کے باعث دوبارہ لڑائی چھڑنے کا خدشہ ہے۔

حالانکہ ٹرمپ نے بارہا اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کے اگلے مراحل پر بات چیت شروع ہو چکی ہے۔

امریکی صدر نے ستمبر کے آخر میں غزہ کے لیے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا، جس نے جنگ بندی کے قیام میں مدد دی۔

مصری صدر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس کا مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور ‘امن و علاقائی استحکام کے نئے دور‘ کا آغاز کرنا تھا، جو ٹرمپ کے وژن سے مطابقت رکھتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button