
کام کی جگہ پر ہراسگی ثابت: نرم اسلام آباد کے سینئر ڈاکٹر پر 10 لاکھ روپے جرمانہ، انتظامی اختیارات واپس لینے کی تجویز
ڈاکٹر مظہر نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایسا ماحول پیدا کیا جو متاثرہ خاتون کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے میں ناخوشگوار اور غیر محفوظ فضا پیدا کرنے کا سبب بنا۔
اسلام آباد (خصوصی رپورٹ)
وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسگی (فوسپاہ) نے خواتین کو کام کی جگہ پر محفوظ ماحول فراہم کرنے کے اپنے مشن کے تحت ایک اہم اور فیصلہ کن اقدام اٹھاتے ہوئے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ری ہیبیلیٹیشن میڈیسن (نرم)، اسلام آباد کے سینئر ڈاکٹر مظہر حسین کے خلاف 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ مذکورہ ڈاکٹر پر کام کی جگہ پر ہراسگی اور صنفی امتیاز کے الزامات کی تحقیقات مکمل ہونے پر یہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔
یہ فیصلہ فوسپاہ کی سربراہ فوزیہ وقار نے شکایت کی مکمل جانچ پڑتال، گواہوں کے بیانات، اور دونوں فریقین کے دلائل کی روشنی میں دیا۔ فیصلہ پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق اور محفوظ ماحول کی فراہمی کے لیے فوسپاہ کے مؤثر کردار کی ایک نمایاں مثال بن کر سامنے آیا ہے۔
شکایت کی نوعیت اور ہراسگی کے رویے کی تفصیل
متاثرہ خاتون نے فوسپاہ کو جمع کرائی گئی شکایت میں الزام عائد کیا تھا کہ ڈاکٹر مظہر حسین (ڈائریکٹر ٹیکنیکل، نرم) نے انہیں مسلسل ہراساں کیا، جس میں ان کی منظور شدہ چھٹیوں کو روکنا، کارکردگی کے پوائنٹس (KPIs) میں غیر ضروری کٹوتی اور انتقامی رویہ شامل تھا۔
تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوئی کہ ڈاکٹر مظہر نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایسا ماحول پیدا کیا جو متاثرہ خاتون کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے میں ناخوشگوار اور غیر محفوظ فضا پیدا کرنے کا سبب بنا۔
فیصلے کی تفصیلات اور اثرات
فوسپاہ نے 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ:
جرمانے کی آدھی رقم متاثرہ خاتون کو ہرجانے کے طور پر دی جائے۔
باقی رقم حکومت کے فنڈ میں جمع کرائی جائے گی۔
ساتھ ہی یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ ڈاکٹر مظہر حسین کو کسی ایسے عہدے پر منتقل کیا جائے جہاں ان کے پاس انتظامی اختیارات نہ ہوں، تاکہ وہ مستقبل میں کسی بھی ماتحت یا ساتھی ملازم کے ساتھ اختیارات کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔
یہ فیصلہ فوسپاہ کے اختیارات اور دائرہ کار کے مطابق آئین اور قانون کے تحت جاری کیا گیا، جو کہ 2010 میں نافذ العمل "کام کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ دینے کا قانون” کے دائرے میں آتا ہے۔
فوسپاہ کا پیغام: محفوظ کام کی جگہ ہر ملازم کا حق
فوسپاہ کی سربراہ فوزیہ وقار نے فیصلے کے بعد جاری بیان میں کہا:
"یہ فیصلہ اس بات کی واضح یاد دہانی ہے کہ کام کی جگہ پر کسی بھی قسم کی ہراسگی، خواہ وہ صنفی بنیاد پر ہو یا طاقت کے ناجائز استعمال پر مبنی ہو، ناقابل برداشت ہے۔ ہمارا مقصد ملک بھر میں تمام ملازمین، خاص طور پر خواتین، کے لیے ایک باعزت، محفوظ اور ہراسگی سے پاک ماحول فراہم کرنا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ فوسپاہ ایسے تمام اداروں اور افراد کو تنبیہ کرتی ہے جو اپنے ماتحت عملے کے ساتھ نازیبا، غیر منصفانہ یا امتیازی سلوک کرتے ہیں کہ وہ قانون کی گرفت سے محفوظ نہیں رہیں گے۔
اداروں کے لیے رہنما اصول
یہ کیس ملک بھر کے سرکاری و نجی اداروں کے لیے ایک مثالی کیس اسٹڈی ہے کہ کس طرح ایک سینئر افسر بھی قانون کے سامنے جواب دہ ہو سکتا ہے۔ فوسپاہ کے فیصلے سے یہ پیغام جاتا ہے کہ:
اختیارات کا ناجائز استعمال ناقابل قبول ہے
ہر ادارے کو اپنے ملازمین کے لیے انصاف پر مبنی، ہراسگی سے پاک، اور پیشہ ورانہ ماحول فراہم کرنا ہوگا
ہراسگی کے متاثرین کی داد رسی اور تحفظ یقینی بنایا جائے گا
خلاصہ و اہم نکات
ڈاکٹر مظہر حسین، ڈائریکٹر ٹیکنیکل، نرم اسلام آباد پر کام کی جگہ پر ہراسگی ثابت
فوسپاہ کی جانب سے 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد
آدھی رقم متاثرہ خاتون کو بطور ہرجانہ ادا کی جائے گی
تجویز دی گئی کہ ڈاکٹر مظہر کو انتظامی اختیارات والے عہدے سے ہٹایا جائے
فیصلہ کام کی جگہ پر محفوظ ماحول کے قیام اور انصاف کے نفاذ کی اہم مثال
ایک تاریخی فیصلہ، خواتین کے حق میں ایک مضبوط پیغام
یہ فیصلہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے حقوق، پیشہ ورانہ تحفظ اور ادارہ جاتی احتساب کے ضمن میں ایک سنگِ میل ہے۔ فوسپاہ کا فعال کردار، اداروں کی شفافیت اور ملازمین کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنے کی جدوجہد میں ایک قابلِ تقلید مثال بن چکا ہے۔
مزید یہ کہ اس فیصلے سے دیگر متاثرین کو بھی آواز بلند کرنے کا حوصلہ ملے گا اور اداروں کو یہ پیغام جائے گا کہ کام کی جگہ پر کسی قسم کی ہراسگی برداشت نہیں کی جائے گی۔



