صحتاہم خبریں

جعلی دوائیں: ایک عالمی مسئلہ

''صرف (ریگولیٹرز) کافی نہیں یہ انتہائی ضروری ہے کہ صحت کی سہولت فراہم کرنے والا ماہر اس عمل میں شامل ہو۔‘‘

میتھیو وارڈ ایگیئس

وزن کم کرنے والی انجیکشنز سمیت مختلف ادویات کی بڑھتی ہوئی مانگ لوگوں کو خطرناک ذرائع سے دوائیں خریدنے پر مجبور کر رہی ہے، لیکن مارکیٹ میں دستیاب نقلی دواؤں کو پہچاننا آسان نہیں۔

امریکی ادارے جان ہاپکنز یونیورسٹی کے صحت عامہ اور وبائی امراض کے ماہر سیف الدین احمد کا کہنا ہے کہ ”ایک ڈاکٹر صرف نسخہ لکھ دیتا ہے، اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ مریض دوا کہاں سے خریدتا ہے۔‘‘

احمد نے بتایا، ”صرف (ریگولیٹرز) کافی نہیں یہ انتہائی ضروری ہے کہ صحت کی سہولت فراہم کرنے والا ماہر اس عمل میں شامل ہو۔‘‘

یہ مسئلہ وزن کم کرنے والی ادویات مثلاً ویگووی اور زیپ باؤنڈ کی بے حد مانگ کے ساتھ اور بھی نمایاں ہو گیا ہے۔ ان میں سیمگلوٹائیڈ یا ٹرزپیٹائیڈ جیسے مرکبات ہوتے ہیں، جو اصل میں ذیابیطس ٹائپ 2 کے علاج کے لیے تیار کیے گئے تھے، لیکن ان کا ایک ضمنی اثر یہ بھی پایا گیا کہ یہ مسلسل وزن کم کرتے ہیں۔

وزن کم کرنے کے خواہش مند افراد کی وجہ سے مانگ بڑھی، جس کے باعث قلت پیدا ہوئی اور نقلی ادویات نے یہ خلا پُر کر دیا۔

انجکشن کے ذریعہ دیے جانے والے مونجارو کا ایک کلوزاپ
سیماگلوٹائیڈ اور ٹرزیپیٹائیڈ کی دنیا بھر میں مانگ ہے، لیکن ان کی قیمتیں اور محدود فراہمی کے باعث صارفین غیر منظور شدہ ذرائع کی طرف رخ کر سکتے ہیںتصویر: Oliver Berg/dpa/picture alliance

جعلی ادویات ایک عالمی مسئلہ

ادویات کی جعلسازی ایک بڑا عالمی مسئلہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر 10 میں سے ایک دوا نقلی ہوتی ہے، جن سے مرض پر قابو پانے میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

اگرچہ یہ مسئلہ زیادہ تر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک (خاص طور پر افریقہ اور ایشیا) میں پایا جاتا ہے، لیکن اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں بھی تقریباً ایک فیصد لوگ غیر منظور شدہ ذرائع سے دوائیں حاصل کرتے ہیں۔

کچھ صورتوں میں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا، مگر بعض اوقات ان میں موجود اجزاء صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں یا نئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے 2023 میں خبردار کیا تھا کہ غیر منظور شدہ، غیر لائسنس یافتہ ذرائع سے آن لائن دوا، جنہیں مناسب منظوری یا معیار کی جانچ کے بغیر فروخت کیا جاتا ہے، خریدنا مریضوں کو غیر محفوظ مصنوعات سے دوچار کر سکتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے سن دو ہزار چوبیس میں خبردار کیا کہ جعلی اوزیمپک کی کھیپیں بلیک مارکیٹ میں پھیل گئی ہیں۔

مزید حال ہی میں، جولائی 2025 میں برطانیہ کی نیشنل فارمیسی ایسوسی ایشن کے مطابق، ہر پانچ میں سے ایک برطانوی شہری نے پچھلے سال وزن کم کرنے والی دوا حاصل کرنے کی کوشش کی۔

اس نے خبردار کیا کہ ان دواؤں کی بڑھتی ہوئی مانگ لوگوں کو ”ریگولیٹڈ فارمیسیوں کی بجائے غیر منظور شدہ آن لائن سپلائرز کی طرف لے جا سکتی ہے۔‘‘

پراگوے  ضبط کی گئی جعلی دوائیں
انتظامیہ اور حکومتیں اکثر جعلی دوائیں ضبط بھی کرتی ہیںتصویر: Jorge Saenz/AP/picture alliance

لوگ جعلی دوائیں کہاں سے خرید رہے ہیں؟

جعلی ادویات آن لائن فارمیسیوں، بین الاقوامی ادویات خریداری، اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کے ذریعے فروخت کی جا رہی ہیں۔

یہ آن لائن مارکیٹیں معروف فارمیسیوں کی شاخیں نہیں ہوتیں بلکہ ایسی ویب سائٹس ہوتی ہیں جو عام قیمت سے بہت کم نرخ پر دوا فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔

آن لائن تصاویر میں یہ دوائیں اصلی جیسی نظر آتی ہیں، مگر جب انہیں وصول کیا جاتا ہے تو پیکٹ پر ہجے کی غلطیاں یا غلط اجزاء کی تفصیل ہوتی ہے۔

یہ صرف جعلی یا بے اثر دوائیں ہی نہیں ہوتیں۔ ریگولیٹرز ان کے کمپاؤنڈنگ کے عمل پر بھی فکر مند ہیں، جس میں مختلف منظور شدہ اجزاء کو ملا کر مخصوص مریضوں کے لیے دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔

کچھ علاقوں میں، جیسے کہ امریکہ میں، تربیت یافتہ فارماسسٹ کو کمپاؤنڈنگ کی اجازت ہے، لیکن پھر بھی یہ عمل مارکیٹ میں دستیاب ادویات کے سخت ضوابط کے مقابلے میں کم ریگولیٹڈ ہے۔

مثال کے طور پر ایف ڈی اے نے وزن کم کرنے والی دواؤں کی کمی کو جب پورا کرنے کے لیے عارضی طور پر کمپاؤنڈنگ کی اجازت دی، تو کچھ فارماسسٹ نے سیمگلوٹائیڈ کے بجائے سیمگلوٹائیڈ سالٹس استعمال کیں، جو کہ منظوری شدہ نہیں تھیں، اور اس سے مضر اثرات سامنے آئے۔

احمد نے کہا،”یہ صرف تربیت یافتہ فارمیسیوں میں نہیں ہوتا تھا۔ یہ جم اور سپا (جیسے جگہوں) میں بھی کیا جا رہا تھا۔‘‘

ایف ڈی اے نے اب ان وزن کم کرنے والی ادویات کے کمپاؤنڈ ورژنز کی اجازت دینا بند کر دی ہے، لیکن اسے خدشہ ہے کہ غیر منظور شدہ آن لائن فارمیسیز اب بھی ناقص مصنوعات فروخت کر رہی ہیں۔

نقلی دواؤں سے متعلق آگاہی

ایف ڈی اے نے ‘بی سیف آر ایکس‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے تاکہ صارفین کو حقیقی دوا کی پہچان کے لیے رہنمائی فراہم کی جا سکے۔

یورپی یونین میں ادویات پر لازمی حفاظتی نشانات اور لیبلنگ کے معیارات نافذ ہیں۔ یورپی میڈیسن ایجنسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مریضوں کو صرف وہی آن لائن ریٹیلر استعمال کرنے چاہئیں جو یورپی یونین کے رکن ممالک کی مجاز قومی اتھارٹی سے رجسٹرڈ ہوں، تاکہ ناقص یا جعلی دوا کے خطرے سے بچا جا سکے۔‘‘

یورپول، جو یورپی یونین میں دوا سے متعلق جرائم کی نگرانی کرتا ہے، نے امریکہ اور کولمبیا کے ساتھ مل کر کارروائیاں کیں۔ 2023 کی ایک کارروائی میں 1,284 افراد کو جعلی دوا اور ممنوعہ مادوں کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

احمد نے کہا کہ مقامی آگاہی مہمات اور قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ، اصل ضرورت مریضوں اور صحت کے ماہرین کے درمیان شعور اور اعتماد کو فروغ دینا ہے۔

احمد جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ‘بی سیف‘پروگرام کی قیادت کر رہے ہیں، جو ناقص اور جعلی ادویات سے متعلق خطرات اور تدارک پر تحقیق کرتا ہے۔

’بی سیف‘ کی جانب سے کی گئی تحقیق سے پتا چلا کہ امریکہ اور جنوبی افریقہ میں لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ دوا کہاں سے محفوظ طریقے سے خریدی جائے اور نقلی یا مضر اثرات کی اطلاع کہاں دیں۔

انہوں نے کہا کہ صارفین، طبی ماہرین اور ریگولیٹرز کے درمیان اعتماد قائم کرنا نقلی اور غیر محفوظ دوا کی خریداری سے بچنے میں مدد دے سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button