
اسرائیلی جارحیت پر فلسطینی ایوانِ صدر کی شدید مذمت، امریکی مداخلت کا مطالبہ
"ہم امریکی انتظامیہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ مغربی کنارے میں جاری جرائم، غزہ میں قحط اور انسانی بحران کو مزید گہرا ہونے سے بچایا جا سکے۔"
رام اللہ (بین الاقوامی رپورٹر)
فلسطینی ایوانِ صدر نے مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج کی جاری پرتشدد کارروائیوں، جبری گرفتاریوں، مالی وسائل کی لوٹ مار اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے جیسے سنگین جرائم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ سے فوری اور مؤثر مداخلت کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اسرائیل کو ان مبینہ جرائم سے روکا جا سکے اور فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی نئی لہر کا سدباب کیا جا سکے۔
یہ بیان سرکاری خبر رساں ایجنسی "وفا” کے ذریعے جاری کیا گیا، جو مغربی کنارے کے شہروں بالخصوص رام اللہ اور الخلیل میں اسرائیلی افواج کی حالیہ دھاوا بولنے کی کارروائیوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
"اسرائیل خطے کو ایک بڑے دھماکے کی طرف لے جا رہا ہے” — فلسطینی ایوانِ صدر
بیان میں اسرائیلی اقدامات کو فلسطینی عوام، ان کی زمین، املاک اور مالیاتی خودمختاری پر مہلک حملے قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ:
"رام اللہ، الخلیل اور دیگر شہروں میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے دھاوے، شہریوں کو گولیوں سے زخمی کرنا، گرفتاری، مالی اداروں سے رقوم کی چوری اور املاک کی تباہی جیسے اقدامات ایک منصوبہ بند اور جارحانہ پالیسی کا حصہ ہیں۔”
بیان میں سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ:
"اسرائیلی حکومت حالات کو ایک بڑے دھماکے کی طرف لے جا رہی ہے تاکہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔ مگر فلسطینی عوام کسی صورت جبری ہجرت یا مقدس مقامات سے دستبرداری کو قبول نہیں کریں گے۔”
امریکہ سے فوری مداخلت کا مطالبہ
فلسطینی قیادت نے واضح الفاظ میں امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی بلاجواز کارروائیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بیان میں کہا گیا:
"ہم امریکی انتظامیہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ مغربی کنارے میں جاری جرائم، غزہ میں قحط اور انسانی بحران کو مزید گہرا ہونے سے بچایا جا سکے۔”
ایوانِ صدر نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری اور بالخصوص امریکہ نے فوری اقدام نہ کیا تو پورا خطہ مزید تباہی اور عدم استحکام کی جانب بڑھے گا، جس کے اثرات دیرپا اور مہلک ہوں گے۔
بین الاقوامی برادری سے مداخلت کی اپیل
بیان میں صرف امریکہ ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ اسرائیل کو اس روش سے باز رکھنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
"ان اقدامات سے نہ صرف مغربی کنارے بلکہ غزہ اور مشرقی یروشلم میں بھی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو پہلے ہی ایک انسانی المیہ کا شکار ہیں۔ اگر فوری طور پر ان جارحیت آمیز کارروائیوں کو نہ روکا گیا تو خطے میں امن کا خواب مزید دور ہو جائے گا۔”
اسرائیلی کارروائیاں: گرفتاری، گولیاں، مالی چوری
فلسطینی حکام کے مطابق، منگل کے روز اسرائیلی افواج نے رام اللہ میں کئی گھنٹوں تک جارحانہ کارروائیاں کیں، جن میں:
58 فلسطینی شہری زخمی ہوئے
3 افراد کو گرفتار کیا گیا
بینکوں اور منی چینجرز سے بڑی رقوم ضبط کی گئیں
نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا
اس کے بعد الخلیل میں بھی اسرائیلی فوج نے دھاوا بولا اور ایک فلسطینی شہری کو بینک کے اندر سے گرفتار کیا، جسے بعد ازاں چھوڑ دیا گیا۔
دو سال میں 1000 سے زائد فلسطینی جاں بحق، 18 ہزار گرفتار
فلسطینی ذرائع کے مطابق گزشتہ دو برس کے دوران اسرائیلی افواج اور یہودی آبادکاروں کی طرف سے کیے جانے والے پرتشدد حملوں میں:
کم از کم 1016 فلسطینی شہید
تقریباً 7000 زخمی
18 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے
غزہ میں 23 ماہ سے جاری جنگ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بھی اسرائیلی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
روزمرہ کی چھاپہ مار کارروائیاں معمول بن چکی ہیں
فلسطینی وزارتِ داخلہ کے مطابق اسرائیلی افواج تقریباً روزانہ کی بنیاد پر مغربی کنارے کے شہروں اور قصبوں میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتی ہیں، جن کا مقصد فلسطینیوں کو دباؤ میں رکھنا، ان کے مالی و سماجی ڈھانچے کو تباہ کرنا، اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔
فلسطینیوں کا عزم: وطن نہیں چھوڑیں گے
بیان کے اختتام پر فلسطینی ایوانِ صدر نے زور دے کر کہا کہ:
"فلسطینی عوام ہرگز نہ اپنی زمین چھوڑیں گے، نہ اپنی آزادی کی جدوجہد سے پیچھے ہٹیں گے، اور نہ ہی اپنے مقدس مقامات سے دستبردار ہوں گے۔ امن سب کے لیے ہے یا کسی کے لیے بھی نہیں۔"
نتیجہ: ایک نیا انسانی بحران سراٹھا رہا ہے
ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل کی کارروائیاں جاری رہیں اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی تو یہ صورتحال ایک نئے انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے، جو نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے امن کو خطرے میں ڈال دے گی۔