
رپورٹ: بین الاقوامی نیوز ڈیسک – اردو
برطانیہ کی نئی لیبر حکومت، جو پہلے ہی غیر قانونی ہجرت اور پناہ کے متلاشی افراد کو رہائش دینے کے مسائل سے نبرد آزما ہے، اب ایک تازہ عدالتی فیصلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عوامی ردعمل کی وجہ سے شدید دباؤ میں آ گئی ہے۔ پناہ گزینوں کو ہوٹلوں میں رہائش دینے کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں نے نہ صرف حکومت کی پالیسیوں کو چیلنج کیا ہے بلکہ اس مسئلے کو ایک انتہائی حساس سیاسی موضوع بنا دیا ہے۔
عدالتی فیصلہ: ہوٹل خالی کرنے کا حکم، حکومت پریشان
لندن کے نواحی علاقے ایپنگ میں واقع "بیل ہوٹل” میں مقیم پناہ گزینوں کے خلاف ایک مقدمے میں ہائی کورٹ نے مقامی کونسل کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ہوٹل کو خالی کرنے کا حکم جاری کیا۔ ایپنگ فاریسٹ ڈسٹرکٹ کونسل نے عدالت سے یہ حکم اس وقت حاصل کیا جب ہوٹل کے باہر ہونے والے مسلسل احتجاج نے علاقے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔
یہ احتجاج اس وقت شدت اختیار کر گئے جب ہوٹل میں مقیم ایک پناہ گزین پر الزام لگا کہ اس نے ایک 14 سالہ لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ اس شخص نے الزام سے انکار کیا ہے اور مقدمہ اس ماہ کے آخر میں شروع ہونا ہے، مگر اس واقعے نے سیاسی اور سماجی کشیدگی کو ہوا دے دی ہے۔
حکومت کا ردعمل: فیصلے کو چیلنج کرنے کا عندیہ
اس عدالتی فیصلے نے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی حکومت کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے، جو اس حکم کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ پناہ گزینوں کو ہٹانے کا یہ عمل انسانی ہمدردی اور قانونی ذمہ داریوں سے انحراف ہو گا۔
وزارت داخلہ کے مطابق حکومت قانونی طور پر پناہ کے متلاشی افراد کو رہائش فراہم کرنے کی پابند ہے، اور موجودہ حالات میں ہوٹلوں کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔
عوامی ردعمل: مظاہرے، احتجاج، گرفتاریاں
عدالتی فیصلے کے بعد ہفتے کے آخر میں ملک کے مختلف شہروں میں پناہ گزینوں کے حق اور مخالفت میں مظاہرے دیکھنے میں آئے۔
"ابولش اسائلم سسٹم” نامی گروپ نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا
جبکہ "اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم” کے کارکنان نے پناہ گزینوں کے حق میں ریلی نکالی
برسٹل میں دونوں گروہوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن میں درجن بھر سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، تاہم کوئی بڑی پرتشدد کارروائی رپورٹ نہیں ہوئی۔
اتوار کو برمنگھم اور لندن کے کینری وارف میں ہوٹلوں کے باہر پُرامن مظاہرے ہوئے۔
پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ
برطانیہ میں پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں گزشتہ برسوں کے دوران ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق:
جون 2025 تک ایک سال کے دوران 1,11,084 افراد نے پناہ کی درخواست دی
32,000 سے زائد افراد ہوٹلوں میں مقیم ہیں
یہ تعداد 2023 میں 56,000 کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی تھی
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہوٹلوں پر انحصار اب بھی جاری ہے، حالانکہ حکومت ان اخراجات کو کم کرنے کے لیے متبادل راستے تلاش کر رہی ہے۔
سیاسی تقسیم: ریفارم یوکے اور کنزرویٹوز کا دباؤ
مہاجرت کا مسئلہ برطانیہ میں سیاسی درجہ حرارت بڑھا رہا ہے۔
ریفارم یوکے کے رہنما نائجل فراج نے پناہ گزینوں کو ملک کی صحت، رہائش اور معاشی مسائل سے جوڑا ہے
ان کی تجویز ہے کہ 24,000 مہاجرین کو سابقہ فضائی اڈوں پر رکھا جائے، جس پر 3.4 ارب ڈالر لاگت آئے گی
مزید برآں، وہ روزانہ پانچ ملک بدری پروازیں شروع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں
اگر یہ منصوبے ناکام ہوتے ہیں، تو فراج کے مطابق پناہ گزینوں کو جنوبی بحر اوقیانوس میں واقع برطانوی جزیرے اسینشن آئی لینڈ پر بھیجا جائے تاکہ ایک "علامتی پیغام” دیا جا سکے۔
لیبر حکومت کا مؤقف: ہم حل تلاش کر رہے ہیں، نفرت نہیں پھیلا رہے
حکومت نے کیمی بیڈینوخ کی اس تجویز کو "مایوس کن اور منافقانہ بکواس” قرار دیا ہے، جس میں انہوں نے ٹوری کونسلز کو ایپنگ کی طرز پر قانونی چیلنجز کرنے کی ترغیب دی تھی۔
تاہم لیبر پارٹی کے زیر انتظام چند کونسلز نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں موجود پناہ گزینوں کے ہوٹلوں کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کر رہی ہیں، جس سے اندرونی سیاسی تناؤ بھی نمایاں ہو رہا ہے۔
مسئلہ عالمی ہے، حل آسان نہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ صرف برطانیہ تک محدود نہیں، بلکہ یورپ بھر میں ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لاکھوں افراد دنیا بھر میں جنگ، غربت، سیاسی جبر اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بے گھر ہو رہے ہیں۔
برطانیہ کی حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ خطرناک انگلش چینل کراسنگز کو روکا جائے، جو اب تک:
2025 میں 27,000 سے زیادہ افراد کر چکے ہیں
جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے
مستقبل: قانونی اصلاحات یا سماجی خلفشار؟
وزیر اعظم اسٹارمر کی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ:
پناہ کی اپیلوں پر فیصلے تیز کرے گی
فرانس کے ساتھ معاہدے کی امید رکھتی ہے تاکہ چینل پار کرنے والوں کو واپس بھیجا جا سکے
انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے بھی نئی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے
تاہم سوال اپنی جگہ برقرار ہے: جو لوگ پہلے سے برطانیہ میں موجود ہیں، انہیں کہاں رکھا جائے گا؟
سماجی اور قانونی تنازعات کا دائرہ دن بدن بڑھ رہا ہے، اور اگر اس مسئلے کا دیرپا حل تلاش نہ کیا گیا تو آنے والے مہینے اور برس برطانیہ میں سیاسی اور سماجی کشیدگی میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔