
سیلاب ہے آہیں ہیں بھوک اور حسرتیں …..حیدر جاوید سید
اس کیلئے پنجاب کے سیلابی علاقوں میں محصور لاکھوں خاندانوں کے مسائل اجاگر کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کراچی میں ایک زیرتعمیر سڑک ملیرندی کے سیلابی ریلے میں بہہ گئی اور پیپلز پارٹی بھٹو سمیت ڈوب گئی
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حالیہ بارشوں کے سلسلوں اور پھر سیلاب نے جسے ہمارے ہاں حسبِ روایت بھارت کی آبی جارحیت کا نام دے کر کچھ مردہ ذہن دلپشوری کرتے ہیں نے پنجاب حکومت کی ساری لش پش کو سیلاب کے پانی میں ہزار ہا ڈبکیاں لگوائیں جس کا صدمہ اتنا شدید ہے کہ پنجاب کے چند وزرا ان میں سینئر وزیر محترمہ مریم اورنگ زیب اور وزیر تعلیم رانا سکندر حیات بھی شامل ہیں جلالپور پیروالہ میں گونجتی آہوں سسکیوں سے بے نیاز ہوکر سیلابی پانی کے قریب ایک محفوظ جگہ کھڑے ہوکر میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز زندہ باد کے نعرے لگاتے لگواتے رہے
سوال ہورہا ہے کیا جلالپور پیروالہ فتح ہوگیا تھا
وزرا کسی جلسے میں آئے تھے یا سیلاب سے پھیلی تباہی کا میلہ لوٹ کر یہ کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اپنے لیڈروں کیلئے زندہ باد کے نعرے لگوانے کی عبادت کو ضروری سمجھتے تھے ؟
ہمارے چار اور پنجاب میں پانی ہی پانی ہے وسطی پنجاب کا معروف شہر گجرات تادم تحریر پانی میں ڈوبا ہوا ہے راوی ستلج پنجاب اور جہلم بپھرے ہوئے ہیں سیلاب سے لاکھوں خاندان اجڑ گئے ہزارہا بستیاں برباد ہوگئیں اس وقت سرائیکی وسیب کی تین معروف تحصیلوں شجاع آباد جلالپورپیروالہ ضلع ملتان اور تحصیل علی پور ضلع مظفرگڑھ میں قیامت برپا ہے
سرِتسلیم خم کہ سیلاب کو روکنا ممکن نہیں لیکن کیا بہتر حکمت عملی اور بروقت کیئے جانے والے فیصلوں سے اس تباہی میں کمی نہیں لائی جاسکتی تھی ؟
کم از کم ہمارا جواب یہ ہے کہ بارہ کروڑ کی آبادی والا صوبہ ٹک ٹاک و ٹپ ٹاپ کا بھرم رکھنے کیلئے رنگین کمرشل سرکاری اشتہارات کی رشوت سے چلایا جا رہا ہے باقی سب دعوے ہیں اور پنجابی زبان والی ” نس بھج ” یعنی صاحب جارہے ہیں اور صاحب آرہے ہیں یوں بھی سمجھ لیجے ( بیبیاں ویندیاں پئین بیبیاں آندیاں پئین )
گزشتہ روز اور قبل ازیں بھی محصورین سیلاب کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کیلئے مختلف علاقوں میں امدادی کاموں میں مصروف کارکنوں اور مقامی ملاحوں کی متعدد کشتیاں ڈوبنے سے درجن بھر سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے پچاس سے زائد لوگوں کو بچا بھی لیا گیا سیلاب زدہ علاقوں میں سرکاری اہلکاروں امدادی کارکنوں اور نجی کشتیوں کے مالکان پر سنگین نوعیت کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں متاثرین دعوے دار ہیں کہ انہیں محفوظ مقامات تک لیجانے کیلئے دس سے پندرہ ہزار روپے فی کس طلب کیئے اور لئے گئے
سب سے بڑی شکایت سیلاب زدگان کی عزت نفس پر سیلفیوں کے تازیانے برسانے کی ہے ایک تھیلہ آٹا یا ایک ڈبہ بریانی عطاکرتے ہوئے متاثرہ شخص اور خاندان کی تصویر بناکر اس کی تشہیر کرنا کہاں کی انسانیت ہے ؟ مگر کیا کیجے ٹک ٹاک و ٹپ ٹاپ سرکار کے ماتحتوں کے سارے کام نرالے ہیں نرالے کام پنجاب سرکار وزیرومشیر اور اہلکار ہی نہیں کررہے پنجاب بیس اردو میڈیا بھی اطلاعاتی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے سفاکیت اور مجرمانہ غفلت کے مظاہروں میں جُتا ہوا ہے
اس کیلئے پنجاب کے سیلابی علاقوں میں محصور لاکھوں خاندانوں کے مسائل اجاگر کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کراچی میں ایک زیرتعمیر سڑک ملیرندی کے سیلابی ریلے میں بہہ گئی اور پیپلز پارٹی بھٹو سمیت ڈوب گئی
نصف صفحے کا رنگین سرکاری اشتہار لے کر قیمت میں کراچی ڈوب گیا کی دس بارہ دن قبل لیڈ لگانے والا یہ پنجاب بیس اردو میڈیا بیسواوں سے بھی بدتر ہے کہ اُن کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں
کچھ اُن میں وضعداری بھی یہ تو خالص ” کمڑشل ” میڈیا ہے
پنجاب میں سیلاب کے آغاز پر لاہور کی ایک معروف ہاوسنگ سوسائٹی جو وفاقی وزیر عبدالعلیم خان کی ملکیت ہے میں دریائے راوی کا پانی داخل ہوگیا تو اخبارات ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر ” اج تے ہوگئی علیم خان علیم خان والی ” صورتحال بن گئی مگر اس سوسائٹی کے پہلو میں ہی اسی کی طرح دریائے راوی کی زمین پر قبضہ کر کے بنائی گئی غربا اور لوئر مڈل کلاس کے بھی درجہ دوئم والے خاندانوں کی
سوسائٹی ” تھیم پارک ” کی المناک داستانیں پارک ویو سوسائٹی اور ایک ٹک ٹاکر خاتون کے جھگڑے میں پسِ پشت چلی گئیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب کے اردو میڈیا کی ترجیحات مختلف ہیں اور ضرورتیں بھی اس میں اتنی پیشہ ورانہ جرات نہیں کہ حکومت سے سوال پوچھ سکے کہ سیلاب میں اب تک جاں بحق ہونے والوں کی حقیقی تعداد کیا ہے ؟
یہ سوال اس لئے پوچھا جانا چاہئے کہ مرنے والوں کی تعداد کو سیلاب سے پہلے کی طوفانی بارشوں کے دوران مرنے والوں میں گڈ مڈ کرکے بتائی جارہی ہے
اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ سیلاب سے پنجاب میں 5 ہزاردیہات متاثر ہوئے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ تعداد میں دیہی آبادیاں صرف سرائیکی وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں میں متاثر ہوئیں مثال کے طور پر ایک لاکھ پچیس ہزار سے زائد افراد نے ضلع بہاولنگر کی خیمہ بستیوں میں پناہ لی بہاولپور رحیم یار خان کے اضلاع کی تفصیلات پر دفتری بابوں چوکڑی بھرے کیوں بیٹھے ہیں ؟
کڑواسچ یہ ہے کہ پنجاب بھر کے سیلابی متاثرین کیلئے دوقت کے کھانے کی باعزت فراہمی کا سرکاری دعویٰ ڈھکوسلہ ہے پنجاب کا ایک وزیر جو اتفاق سے شریف خاندان کا قریبی عزیز ہے سیلاب متاثرین کے بچوں سے ایک ہی سوال پوچھتا پھرتا ہے
” تینوں بریانی ملی بوٹی ہے سی اودے وچ بوٹی کھادی او ”
تم نے بریانی کھائی بوٹی تھی اس میں تم نے بوٹی کھائی ؟
یہ کیا احمقانہ طرزعمل ہے اس طرح تو کسی مستحق کو اپنی جیب سے کھانا کھلانے والا عام شہری نہیں پوچھتا جیسے وزیر صاحب پوچھتے پھر رہے ہیں
بارِدیگر عرض ہے ہیں بہت تلخ بندگانِ سیلاب زدوں کے حالات لاکھوں خاندانوں کی زندگی کی کمائی ڈوب گئی فصلیں تباہ ہوگئیں گھر اور دکانیں بھی وہ تہی دامن محصور ہیں ان میں سے جو محفوظ مقامات تک پہنچ گئے ان کی حالت تشویشناک ہے کھلا آسمان ہے پینے کا صاف پانی ہے نہ دووقت کی روٹی کا سامان ننانوے فیصد کے پاس صرف وہی کپڑے ہیں جو ان کے جسموں پر ہیں سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں یہ وقت ہے کہ سب ایک ہوں
حکومت اپوزیشن مخیئر حضرات عام آدمی سیلاب متاثرین ہمارے ہی بہن بھائی ہیں ان کے دکھ سُکھ میں ہمیں ہی ساجھے دار بننا ہوگا ساعت بھر کیلئے رُکیئے پنجاب کے ضلع قصور کے ایک سیلاب سے متاثرہ سرحدی دیہات کے کسانوں کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے وہ بتارہے ہیں کہ بھارتی سرحدی دیہات کے کسانوں نے انہیں جانوروں کیلئے چارہ کاٹ لیجانے کی اجازت دی ہے اور سیکورٹی فورس بھی آڑے نہیں آتی
اب غور کیجے پڑوس کے غیر مسلموں کو جانوروں تک سے ہمدردی ہے کیا مقابلتاً ہمیں انسانوں سے اتنی ہمدردی ہے ؟
سیلاب زدہ پنجاب وسطی اور سرائیکی وسیب دونوں میں متاثرین شدید مسائل کا شکار ہیں انہیں خیمے ترپالیں ٹینٹ کپڑے کھانے پینے کی اشیا پینے کا صاف پانی اور نزلہ بخار کھانسی و پیٹ کی خرابی سے نجات کی ادویات کی اشد ضرورت ہے حکومت تنہا اس صورتحال سے عہدہ برآ نہیں ہوپائے گی پنجاب اور سرائیکی وسیب کے ہرشخص کو آگے بڑھ کر متاثرین کی مدد اور دلجوئی کرنا ہوگی
آسان و سادہ لفظوں میں یہ کہ آپ اپنی دوروٹیوں میں سے ایک روٹی مستحق بہن بھائی کی خدمت میں پیش کیجے یہی آپ کا فرض ہے
ہم مذہبی اخلاقی اور انسانی فرض کی لچھے دار بحث میں نہیں پڑتے بس فرض فرض ہوتا ہے سرائیکی وسیب میں سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں کے لاکھوں خاندان آپ کی راہ تک رہے ہیں ان کی آنکھوں میں مدہم ہوتے امید کے دیئے بجھنے نہ دیجئے خطرات ابھی کم نہیں ہوئے
یہ بات بھی ذہن نشین کرلیجے کہ سیلابی پانی راتوں رات خشک نہیں ہوگا وقت لگے گا کم از کم اڑھائی سے تین ماہ لگیں گے صاف سیدھا مطلب یہ کہ اس بار گندم کی بوائی ( کاشت ) متاثر ہوگی تلخ حقیقت یہ ہے کہ غذائی بحران کا خطرہ ہے اس سے حکمت عملی سے نمٹنا ہوگا کیا پنجاب کی حکومت میں حکمت عملی وضع کرنے کی صلاحیت ہے ؟
بہت احترام کے ساتھ یہ عرض ہے بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ پنجاب کی تاریخ کی سب سے ناتجربہ کار حکومت ہے اس کی نکیل چالاک بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ہے اسی لئے روزانہ نئے منصوبے کا اعلان ہوتا ہے اور رنگین اشتہارات کی میڈیا پر بارش میڈیا خوش کمیشن خوروں کی موجیں اور سب اچھا کی دھوم پنجاب آجکل یہی ہے
ان حالات میں زمین زادوں کو ہی ایک دوسرے کے دکھ درد بٹانا ہوں گے سادہ الفاظ میں یہ کہ ” جاگدے رہنا حکومت توں آس امید بالکل نہ رکھنا ” اور اگر رکھی تو خود ذمہ دار ہوں گے

