بین الاقوامیاہم خبریں

چین کا داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کے خلاف سخت موقف، تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین پر پختہ مؤقف کا اعادہ — شیانگ شان فورم میں امن، مکالمے اور خودمختاری پر زور

چینی وزیر دفاع ڈونگ ژون نے اپنے خطاب میں نہ صرف تائیوان پر چین کے دیرینہ مؤقف کو دوہرایا بلکہ جنوبی بحیرہ چین میں چین کے علاقائی دعووں کی پُرزور حمایت بھی کی

وائس آف جرمنی نیوز ڈیسک

چین نے ایک بار پھر عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ علاقائی تنازعات کے حل کے لیے طاقت کی بجائے امن، مکالمے اور باہمی احترام کی راہ اختیار کرے۔ بیجنگ میں منعقدہ شیانگ شان سکیورٹی فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر دفاع ڈونگ ژون نے اپنے خطاب میں نہ صرف تائیوان پر چین کے دیرینہ مؤقف کو دوہرایا بلکہ جنوبی بحیرہ چین میں چین کے علاقائی دعووں کی پُرزور حمایت بھی کی۔

ڈونگ ژون نے عالمی حالات کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا آج ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہے — امن یا جنگ، مکالمہ یا تصادم۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم انسانیت کے روشن مستقبل کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں یا خودغرضی، طاقت اور تصادم کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں۔‘‘

تائیوان چین کا حصہ ہے: ڈونگ ژون

چینی وزیر دفاع نے اپنی تقریر میں تائیوان کے حوالے سے چین کا موقف انتہائی واضح انداز میں پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا:

’’تائیوان بلا شبہ چین کا اٹوٹ انگ ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی (PLA) دوبارہ اتحاد کے لیے پوری طرح تیار بھی ہے اور اہل بھی۔ ہم تائیوان کی نام نہاد آزادی کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

ڈونگ ژون نے بغیر کسی ملک کا نام لیے واضح اشاروں میں امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

’’چین کسی بھی بیرونی طاقت کی فوجی مداخلت کو ناکام بنانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ہمارے صبر کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔‘‘

یاد رہے کہ تائیوان، جو 23.4 ملین افراد پر مشتمل ایک جمہوری علاقہ ہے، 1949 سے خودمختار حیثیت میں کام کر رہا ہے۔ تاہم بیجنگ اسے اپنا صوبہ تصور کرتا ہے اور وقتاً فوقتاً اس کے انضمام کے لیے دباؤ بڑھاتا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ، جو تائیوان کا اہم ترین غیر سرکاری اتحادی ہے، 1979 کے تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت جزیرے کی دفاعی صلاحیتوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔

جنوبی بحیرہ چین میں خودمختاری پر اصرار

شیانگ شان فورم میں چینی وزیر دفاع نے جنوبی بحیرہ چین میں جاری کشیدگی پر بھی سخت مؤقف اختیار کیا، جہاں حالیہ دنوں میں چین اور فلپائن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ڈونگ ژون نے خبردار کیا:

’’خطے میں طاقت کے بل پر بالا دستی حاصل کرنے کی کوشش، درحقیقت ’جنگل کے قانون‘ کی واپسی ہے، جو کسی کے مفاد میں نہیں۔ چین اپنی علاقائی خودمختاری، بحری حدود اور قدرتی وسائل کا دفاع ہر قیمت پر کرے گا۔‘‘

حالیہ دنوں میں چین نے ایک متنازعہ "اٹول” یا مرجانی دائرہ نما جزیرے کو قدرتی ذخیرہ قرار دے کر اپنے دعووں کو مزید تقویت دی ہے، جس پر فلپائن اور دیگر آسیان ممالک کو شدید تحفظات ہیں۔

شیانگ شان فورم: چین کا متبادل سکیورٹی پلیٹ فارم

شیانگ شان فورم کو چین کی طرف سے ایشیائی سکیورٹی ڈائیلاگ کے لیے متبادل پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جو کہ سنگاپور میں منعقد ہونے والے معروف شنگریلا ڈائیلاگ کے مقابلے میں ہے۔
مغربی ممالک عموماً اس فورم میں نچلے درجے کے نمائندے بھیجتے ہیں، تاہم اس سال امریکہ اور جرمنی نے اپنے سفارت خانوں سے ملٹری اتاشی بھیجے، جو اس فورم کی عالمی اہمیت میں بتدریج اضافے کا عندیہ ہے۔

اس کے برعکس چین نے بھی اس سال سنگاپور میں ہونے والے شنگریلا ڈائیلاگ میں نچلے درجے کا وفد بھیج کر سفارتی توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔

وسطی ایشیا اور گلوبل ساؤتھ کی بھرپور شرکت

فورم میں وسطی ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور دیگر ترقی پذیر خطوں سے تعلق رکھنے والے وزرائے دفاع اور اعلیٰ سطحی ماہرین کی شرکت نے اس بات کو نمایاں کیا کہ چین اپنے بین الاقوامی اثرورسوخ کو صرف ایشیا تک محدود نہیں رکھنا چاہتا بلکہ ایک متبادل عالمی سکیورٹی نظام کا تصور پیش کر رہا ہے۔

بیجنگ حکومت کے مطابق 100 سے زائد ممالک کے نمائندے، وزرائے دفاع اور پالیسی ماہرین فورم میں شریک ہوئے، جنہوں نے عالمی سکیورٹی، دفاعی تعاون، دہشت گردی، سمندری تحفظ اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی دوڑ پر تبادلہ خیال کیا۔

تجزیہ: چین کا نیا عالمی بیانیہ؟

چین کے اس فورم میں مؤثر اور جارحانہ شرکت کو بین الاقوامی حلقوں میں ایک نئے سفارتی بیانیے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بیجنگ نہ صرف امریکہ کے زیر اثر سکیورٹی پلیٹ فارمز کا متبادل تشکیل دے رہا ہے بلکہ گلوبل ساؤتھ کو ساتھ ملا کر مغربی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چین واقعی دنیا کو امن، مکالمے اور ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے، تو اسے خود بھی اپنے علاقائی رویوں میں لچک اور شفافیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر، فورمز، تقاریر اور دعوے صرف بیانیاتی جنگ تک محدود رہیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button