
فرینکفرٹ، نیوز ڈیسک
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اسرائیل کے حوالے سے بڑھتی ہوئی عالمی تنقید کے تناظر میں ایک سخت اور جذباتی موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’جب اسرائیل پر تنقید کی آڑ میں سامیت (یہودیت دشمنی) کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تو جرمنی اپنی روح کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
یہ بیان انہوں نے فرینکفرٹ میں جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے قیام کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ایک اہم یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ اس تقریب میں جرمن سیاست دانوں، یہودی برادری کے نمائندوں اور بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی۔
یہودیوں کے بغیر جرمنی کا مستقبل نہیں: میرس
اپنی تقریر میں چانسلر میرس نے واضح الفاظ میں کہا کہ جرمنی کی ثقافتی، معاشرتی اور اخلاقی بنیادیں یہودی برادری کی موجودگی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتیں۔ ان کا کہنا تھا:
"وفاقی جمہوریہ جرمنی کبھی اپنی جڑوں پر قائم نہ رہتا اگر ہمارے ملک میں یہودی زندگی اور یہودی ثقافت نہ ہوتیں۔”
انہوں نے مزید کہا:
"یہودی برادری کے بغیر جرمنی کے لیے ایک اچھا مستقبل ممکن نہیں۔”
چانسلر میرس کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان غزہ میں جاری حالیہ جنگ نے دنیا بھر میں شدید ردعمل پیدا کیا ہے، جس کے اثرات یورپ بالخصوص جرمنی میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
اسرائیل کی تنقید یا سامیت دشمنی؟
چانسلر میرس نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ:
"اسرائیلی حکومت پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن جب یہ تنقید سامیت دشمنی میں تبدیل ہو جائے، یا جب جرمنی سے اسرائیل سے کنارہ کشی کا مطالبہ کیا جائے، تو ہم بطور قوم اپنی روح کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔”
انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ نسل پرستی، امتیاز، اور سامیت دشمنی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں:
"ہم سب پر لازم ہے کہ جہاں بھی سامیت دشمنی، نسل پرستی یا امتیاز و تفریق دیکھیں، وہاں شہری جرأت کا مظاہرہ کریں۔”
یہودیوں کی مرکزی کونسل کا مطالبہ: اسرائیل کی غیر مشروط حمایت جاری رکھی جائے
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے صدر یوزیف شُسٹر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی غیر مشروط حمایت جاری رکھے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بعض یورپی ممالک اسرائیل پر تنقید میں شدت لا رہے ہیں۔
شُسٹر نے کہا:
"جرمنی کو اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا واضح اظہار کرنا چاہیے — یہ کوئی مشروط یا وقتی وابستگی نہیں ہونی چاہیے۔”
انہوں نے چانسلر میرس پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی حمایت کے راستے سے نہ ہٹیں، نہ کسی بیرونی دباؤ سے اور نہ ہی "انفرادی قانون سازوں” کی آرا سے متاثر ہوں۔
جرمن حکومت کا متوازن مؤقف
اگرچہ موجودہ چانسلر فریڈرش میرس کی حکومت غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں پر سابق حکومتوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ تنقید کرتی رہی ہے، لیکن اس کے باوجود جرمنی نے یورپی یونین کی جانب سے اسرائیل پر کسی بھی قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی مخالفت جاری رکھی ہے۔
جرمنی اس بات پر قائم ہے کہ اسرائیل کی سلامتی جرمنی کی خارجہ پالیسی کا "غیر متزلزل ستون” ہے، تاہم میرس حکومت نے حالیہ مہینوں میں غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
سامیت دشمنی میں اضافہ: تشویش کی لہر
حالیہ مہینوں میں جرمنی سمیت یورپ بھر میں سامیت دشمن واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جن میں یہودی عبادت گاہوں پر حملے، عوامی مظاہروں میں اسرائیل مخالف نعرے بازی، اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد شامل ہیں۔ اس پس منظر میں چانسلر میرس کا بیان نہ صرف ایک حکومتی پالیسی کا اعادہ ہے بلکہ ایک اخلاقی اور تاریخی ذمہ داری کی یاد دہانی بھی ہے۔
تاریخی پس منظر: کونسل کی بنیاد اور کردار
جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کا قیام دوسری عالمی جنگ کے صرف پانچ سال بعد، 1950 میں فرینکفرٹ میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت یہ تنظیم نازی دور میں ہونے والے مظالم کے بعد بچ جانے والی یہودی برادری کی نمائندگی کے لیے قائم کی گئی تھی۔
آج یہ کونسل جرمنی میں یہودی برادری کی مذہبی، سماجی اور سیاسی نمائندہ تنظیم کے طور پر کام کرتی ہے، اور یہودیوں کے تحفظ، مذہبی آزادی، اور سامیت دشمنی کے خلاف پالیسی سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
اختتامی کلمات
فرینکفرٹ کی یہ تقریب ایک علامتی یاد دہانی بن گئی ہے کہ جرمنی آج بھی اپنی تاریخ کے سائے میں کھڑا ہے، جہاں یہودی برادری کے ساتھ تعلقات محض سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی، ثقافتی اور قومی ذمہ داری ہیں۔
چانسلر میرس کے یہ الفاظ کہ ’’یہودی برادری کے بغیر جرمنی کا مستقبل ممکن نہیں‘‘، صرف سیاسی بیان نہیں بلکہ اس قوم کے اجتماعی ضمیر کی عکاسی ہیں، جو ماضی کے زخموں کو یاد رکھتے ہوئے ایک بہتر اور باہم احترام پر مبنی مستقبل کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔