
ایک ماں کی غیرمعمولی ہمت: باسفورس کو تیر کر پار کرنے والی خاتون کی ناقابلِ فراموش کہانی
"میں، ایک سمجھدار، کام کرنے والی ماں، کیوں ترکی میں ایشیا اور یورپ کے بیچ تیرنے کی کوشش کر رہی ہوں؟"
رپورٹ: نمائندہ خصوصی، استنبول
استنبول – خوابوں کی کوئی عمر نہیں ہوتی، اور حوصلہ صرف نوجوانوں کا زیور نہیں۔ اسی حقیقت کو سچ کر دکھایا ایک پاکستانی خاتون نے، جو اپنی 50 کی دہائی میں، ماں اور پیشہ ور کے دوہرے کردار کے ساتھ، ترکی کی مشہور آبنائے باسفورس کو تیراکی کے ذریعے عبور کرنے کا کارنامہ سر انجام دے گئیں۔
وہ 37ویں باسفورس کراس کانٹینینٹل تیراکی ریس میں شریک تھیں — ایک عالمی سطح کا سالانہ ایونٹ جو ہزاروں شوقیہ اور پیشہ ور تیراکوں کو ایشیا اور یورپ کے درمیان قدرتی آبی سرحد عبور کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس ایونٹ کو ترک اولمپک کمیٹی منظم کرتی ہے اور اسے دنیا کے چند انوکھے اور چیلنجنگ تیراکی مقابلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
"میں نے ایشیا سے یورپ تک تیراکی کی — امید کی ایک لہر نے مجھے آگے بڑھایا”
یہ جملہ اس بہادر خاتون کی زبانی ہے، جو صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی ایک مشکل ترین رکاوٹ کو پار کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ استنبول کے مشہور فاتح سلطان مہمت پل کے نیچے سے گزر رہی تھیں، تو ایک ساتھی تیراک کی خوشی میں چیخنے کی آواز پانی میں گونجی، اور وہ آواز ان کے دل میں اتری — جیسے کائنات نے بھی ان کے سفر کو تسلیم کر لیا ہو۔
پانی کی سطح پر تیرتی جیلی فش، چہرے پر چھڑکنے والا نمکین پانی، اور افق کے نیچے چھپتا سورج — یہ سب لمحے جیسے زندگی کے کسی خوابناک منظر کا حصہ لگ رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی دوسرا پل، 15 Temmuz Şehitler Köprüsü نظر آیا، ان کے ذہن میں سوال ابھرا:
"میں، ایک سمجھدار، کام کرنے والی ماں، کیوں ترکی میں ایشیا اور یورپ کے بیچ تیرنے کی کوشش کر رہی ہوں؟”
تیاری کا سفر: جسمانی سے زیادہ ذہنی جنگ
باسفورس کی ریس میں شرکت کرنا آسان نہیں۔ اندراج کے لیے طبی کلیئرنس، سوئمنگ کلب کی رکنیت، اور ایک کوچ کی تصدیق لازمی ہوتی ہے۔ انہوں نے مہینوں تک تیاری کی، فاصلہ بڑھایا، رفتار میں بہتری لائی، اور اپنی تکنیک پر کام کیا۔
ایک مقام پر ان کا حوصلہ متزلزل ضرور ہوا — جب بحیرہ روم میں ہونے والی ایک ریس میں وہ آخری آئیں، چہرے پر جیلی فش نے ڈنک مارا، اور انفیکشن کے باعث ایک ہفتہ پانی سے دُور رہنا پڑا۔ لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔ استنبول پہنچنا، اور ریس کے آغاز تک پہنچنا ان کا مقصد بن چکا تھا۔
ریس کے دن کی صبح: چیمپئنز کا ناشتہ
ریس کے دن انہوں نے ایک چیمپئن کی طرح ناشتہ کیا — کافی، انڈے، ہمس، اور مزید کافی۔ لیکن اصل امتحان ابھی باقی تھا۔
Cemil Topuzlu پارک پر تمام تیراک جمع ہوئے، جہاں سے انہیں کشتیوں کے ذریعے ایشیائی سمت لے جایا گیا، تاکہ فتح سلطان مہمت پل کے شمالی کنارے سے ریس کا آغاز ہو سکے۔ اس لمحے کا منظر ان کے ذہن میں ابھی تک تازہ ہے:
"کشتی کی سواری لامتناہی لگ رہی تھی، جیسے ہم اپنی منزل سے نہیں بلکہ اپنے خوف سے دور جا رہے ہوں۔”
باسفورس: سمندر نہیں، حوصلے کا پل
6.5 کلومیٹر طویل یہ ریس، جو بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے جوڑنے والی باسفورس آبنائے میں منعقد ہوتی ہے، دنیا بھر سے آنے والے 2,800 سے زائد تیراکوں کا مرکز بنی۔ 750 میٹر چوڑی آبی گزرگاہ میں شمال سے جنوب کی سمت بہنے والے قدرتی دھارے تیراکوں کو مدد ضرور دیتے ہیں، لیکن ہر stroke میں، ہر سانس میں، اپنی طاقت، برداشت، اور ارادے کی آزمائش ہوتی ہے۔
بہت سے تیراک فری اسٹائل یا کروال میں رفتار حاصل کرتے ہیں، لیکن یہ خاتون بریسٹ اسٹروک سے تیرتی رہیں — ایک سست مگر مستحکم تکنیک۔ کچھ لوگوں نے ان کے انتخاب پر تعجب کیا، کچھ نے ناامیدی سے انہیں دیکھا، لیکن وہ نہ رکی، نہ جھکی، نہ پیچھے ہٹی۔
"جب میں ختم لائن پر پہنچی تو… میں صرف ہنستی رہی”
انہوں نے مقررہ وقت کے اندر ریس مکمل کی۔ وہ نہ صرف کٹ آف ٹائم سے پہلے فائنل لائن پر پہنچیں، بلکہ وہ اپنی عمر، صنف، اور سماجی کردار کی حدود سے بھی آگے نکل گئیں۔
"میں ہنسی، میں روئی، میں نے شکر ادا کیا۔ میں نے خود کو ثابت کیا — خود کے لیے، اپنے بچوں کے لیے، اور ان تمام لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں کہ عمر، خواب دیکھنے کی حد ہے۔”
ایک مثال، ایک پیغام
یہ خاتون ہر اُس انسان کے لیے مثال ہیں جو سمجھتا ہے کہ وہ "زیادہ عمر رسیدہ ہے”، "زیادہ مصروف ہے”، یا "زیادہ عام ہے” کسی خواب کی تکمیل کے لیے۔
انہوں نے صرف باسفورس کو پار نہیں کیا، بلکہ اپنی ہمت، لگن اور استقامت سے ثابت کیا کہ خواب دیکھنے اور پورا کرنے کی کوئی حد مقرر نہیں۔
خاتون کا پیغام
"اگر میں، ایک ماں، ایک ورکر، پچاس سال کی عمر میں، تیراکی کے ذریعے دو براعظم پار کر سکتی ہوں — تو یقین کریں، آپ بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ خواب دیکھیے، تیاری کیجیے، اور پانی میں کود جائیے!”
باسفورس کراس کانٹینینٹل سوئم — ایک عالمی ایونٹ
منتظم: ترک اولمپک کمیٹی
فاصلہ: 6.5 کلومیٹر (تقریباً 4 میل)
شرکاء: 2,800+
ممالک: 81
منعقد ہوتا ہے: ہر سال اگست کے آخر میں
منفرد پہچان: دنیا کی واحد تیراکی ریس جو دو براعظموں کو جوڑتی ہے
یہ صرف ایک ریس نہیں، بلکہ جذبے، جنون اور جیت کی علامت ہے۔



