یورپتازہ ترین

جرمنی میں ہر سال گیارہ ملین ٹن خوراک کوڑے کے کنٹینروں میں

''جرمنی میں ہر سال تقریباﹰ 11 ملین ٹن خوراک کوڑے کے کنٹینروں میں پھینک دی جاتی ہے اور وسائل کے اس ضیاع کو کم سے کم کر دینے کی سماجی جنگ صرف مل جل کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔‘‘

مقبول ملک ، ڈی پی اے اور ای پی ڈی کے ساتھ

جرمنی میں ہر سال گیارہ ملین ٹن اشیائے خوراک کوڑے کے کنٹینروں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ ایسا اکثر عام گھروں میں کیا جاتا ہے۔ جرمن وزیر زراعت کے مطابق اس رجحان اور وسائل کے ضیاع کے خلاف فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا، ”جرمنی میں ہر سال تقریباﹰ 11 ملین ٹن خوراک کوڑے کے کنٹینروں میں پھینک دی جاتی ہے اور وسائل کے اس ضیاع کو کم سے کم کر دینے کی سماجی جنگ صرف مل جل کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔‘‘

وفاقی جرمن وزارت زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر سال جتنی بڑی مقدار میں اشیائے خوراک کوڑے میں پھینک دی جاتی ہیں، اس میں سے 60 فیصد کا سبب عام گھرانے بنتے ہیں۔

جرمنی میں ایک گھر کے اندر رکھے گئے اشیائے خوراک کے کوڑے کے بن میں پھینکے گئے بریڈ رولز، یہ کوڑا بعد میں فوڈ کنٹینر میں پھینک دیا جاتا ہے
جرمنی میں ایک گھر کے اندر رکھے گئے اشیائے خوراک کے کوڑے کے بن میں پھینکے گئے بریڈ رولز، یہ کوڑا بعد میں فوڈ کنٹینر میں پھینک دیا جاتا ہےتصویر: Mario Ho/mhphoto/imago images

پیر 29 ستمبر سے شروع ہونے والی خصوصی مہم

جرمنی میں روزمرہ کی زندگی میں اشیائے خوراک کے ضیاع کو کم سے کم کرنے کے لیے پیر 29 ستمبر سے ہفتے بھر کے لیے ایک ایسی ملک گیر مہم بھی شروع کی جا رہی ہے، جس کا عنوان ہے: ”اتنی اچھی (خوراک) کہ جسے کنٹینر میں نہیں جانا چاہیے۔‘‘

اس مہم کے دوران ملک بھر میں عام شہریوں میں مختلف طریقوں سے اس شعور کو ترویج دینے کی کوشش کی جائے گی کہ جب قابل استعمال اشیائے خوراک کوڑے کے ڈبوں میں پھینک دی جاتی ہیں، تو نتیجہ قیمتی وسائل کا ایسا ضیاع ہوتا ہے، جو باعث افسوس بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔

جرمنی میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کے ملکی مرکز کے مطابق اس مسئلے کا بہترین حل تو یہ ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہی نہ ہونے دی جائے، جو کھانے پینے کی اشیاء کے کوڑے میں پھینکے جانے کا باعث بنے۔

کوڑے کے ڈبے میں پھینکے گئے پھل اور سبزیاں
جرمنی میں ہر سال جتنی بڑی مقدار میں اشیائے خوراک کوڑے میں پھینک دی جاتی ہیں، اس میں سے 60 فیصد کا سبب عام گھرانے بنتے ہیںتصویر: Ute Grabowsky/photothek/picture alliance

خوراک ضائع کیسے ہوتی ہے؟

جرمن صارفین کے حقوق کے تحفظ کی ملکی تنظیم کے مطابق اشیائے خوراک کے ضیاع کے بڑے اسباب میں عام صارفین کی سوچ، اشیاء کی ضرورت سے زیادہ تجارتی پیداوار اور خوراک کے پیکٹوں کے سائز بھی شامل ہیں۔

اس تنظیم کے صدر دفتر کی طرف سے اس حوالے سے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا گیا، ”وہ آخری تاریخ، جو اشیائے خوراک کے پیکٹوں پر لکھی ہوتی ہے اور جس تاریخ تک ایسی مصنوعات کو استعمال کیا جا سکتا ہو، اس تاریخ سے پانچ دن پہلے ہی عام مارکیٹوں کا عملہ انہیں شیلفوں سے ہٹانا شروع کر دیتا ہے اور ایسی تمام مصنوعات کوڑے میں پھینک دی جاتی ہیں۔‘‘

ساتھ ہی یہ بات بھی المناک ہے کہ جرمنی جیسے ملک میں بھی کئی ایسے ضرورت مند انسان ہوتے ہیں، جو اپنے لیے معمول کی گروسری کی شاپنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے، اور اپنی ضرورت کی اشیائے خوراک کوڑے کے کنٹینروں سے نکال لیتے ہیں۔

ایک سپر مارکیٹ کا پھلوں اور سبزیوں والا حصہ
کئی جرمن سپر مارکیٹوں میں علیحدہ سے اشیائے خوراک کے ایسے تھیلے رکھے ہوتے ہیں، جو بلاقیمت اور ضرورت مند افراد کے لیے ہوتے ہیںتصویر: Thomas Lohnes/Getty Images

اس کے لیے متعلقہ افراد اپنی گفتگو میں containern کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس کا جرمن زبان میں لفظی مطلب ہے: ’’کنٹینر سے نکالنا۔‘‘

کوڑے کے کنٹینروں سے خوراک نکالنا خلاف قانون

جرمنی میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کی ملکی تنظیم کے مطابق، ”اشیائے خوراک کی خریداری کی کم سکت یا ‘غذائی غربت‘ اب جرمن معاشرے کی ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے۔‘‘

جہاں تک کوڑے کے کنٹینروں سے اشیائے خوراک نکالنے کا تعلق ہے، تو یہ عمل جرمنی میں قانوناﹰ ابھی تک ممنوع ہے۔ کنزیومر رائٹس تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی تک ایسی قانون سازی کی کوئی نئی کوشش نہیں کی، جس کے بعد containern  کا عمل غیر قانونی نہ رہے۔

ایک سپر مارکیٹ کے باہر کنٹینر میں پھینکے گئے پھل اور سبزیاں
ایک سپر مارکیٹ کے باہر کنٹینر میں پھینکے گئے پھل اور سبزیاںتصویر: Marcos Böhler/DW

دو سال پہلے اس دور کی وفاقی جرمن حکومت نے کنٹینروں سے اشیائے خوراک نکال کر استعمال کرنے کے عمل کو زیادہ تر قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی تھی، تاہم تب اس سلسلے میں کوئی متفقہ ضابطہ طے نہیں پا سکا تھا۔

اس بارے میں وفاقی سطح پر اتفاق رائے اس لیے ضروری ہے کہ انتظامی سطح پر کنٹینروں سے خوراک نکالنے والوں کو سزا دینا یا ان سے جرمانہ وصول کرنا صوبائی حکومتوں کی عمل داری میں آتا ہے اور اگر وفاقی سطح پر قانون سازی نہ کی گئی، تو صوبوں میں اس قانون پر عمل درآمد بہت پیچیدہ اور مشکل ہو سکتا ہے۔

گزشتہ حکومتی کوشش کے دوران اس موضوع پر ملک کے تمام 16 وفاقی صوبوں میں کوئی اتفاق نہ ہو سکا تھا۔ برلن میں وفاقی وزارت زراعت کے مطابق وہ اس موضوع پر فی الحال اپنی طرف سے پارلیمانی قانون سازی کی کوئی نئی کوشش نہیں کرنا چاہتی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button