سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
اسلام آباد ( قومی اسمبلی): پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے جمعے کو قومی اسمبلی میں وضاحتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کے حوالے سے پیش کیے گئے 20 نکات “من و عن” پاکستان کی پالیسی یا موقف نہیں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان نکات میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور وزیراعظم کے ردعمل کو اس پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ وائٹ ہاؤس نے پیر (29 ستمبر) کو غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور فلسطینی زمین کے مستقبل کے بارے میں 20 نکاتی منصوبہ جاری کیا، جس پر عوامی اور پارلیمانی سطح پر سوالات اٹھے۔ انہوں نے پارلیمان کو بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران جو ردعمل دیا وہ اسی دستاویز کے سیاق و سباق میں تھا اور یہ کہنا درست نہیں کہ وہ امریکی خاکے کو بلا تبدیلی قبول کر چکے ہیں۔
قائداعظم کے اصولوں کے مطابق پالیسی برقرار — اسحاق ڈار
وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان کی فلسطین کے بارے میں پالیسی قائداعظم محمد علی جناح کے نظریات پر مبنی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا:
’’ہماری پالیسی وہی ہے جو قائداعظم کی تھی، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے، نہ ہوگی۔‘‘
انہوں نے پارلیمان کو آگاہ کیا کہ اقوامِ متحدہ کے 78ویں سیشن (یا صارف کی تحریر کے مطابق 88ویں حوالہ غلطی ہو سکتی ہے — یہاں دستاویزی حوالہ بندی پر غور لازمی ہے) میں وزیراعظم نے نہ صرف کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا بلکہ فلسطین کے مسئلے کی بھی بھرپور نمائندگی کی اور اسرائیل کی کارروائیوں پر تنقید اور مذمت کی گئی۔
مشترکہ مسلم ردعمل اور اعلامیہ
وزیرخارجہ نے بتایا کہ امریکی اعلان کے بعد آٹھ مسلم ممالک — اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، سعودی عرب، قطر اور مصر — کے وزرائے خارجہ نے مشاورت کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔ اس اعلامیے میں طے پایا کہ وہ امریکہ اور دیگر فریقین کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے ایک جامع معاہدے کی کوشش کریں گے جس میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک ترسیل، فلسطینیوں کی بے دخلی سے بچاؤ، قیدیوں کی رہائی، ایک مؤثر سکیورٹی ڈھانچے کی تشکیل، اسرائیل کا مکمل انخلا، غزہ کی تعمیرِ نو اور دو ریاستی حل پر مبنی منصفانہ امن شامل ہوگا۔
اسحاق ڈار نے ایوان کو مشترکہ اعلامیہ کا متن پڑھ کر سنایا اور اس امر پر زور دیا کہ مذکورہ نکات خطے میں پائیدار امن و استحکام کے حصول کی کنجی ہیں۔
’’غزہ عالمی ضمیر کا قبرستان ہے‘‘ — سخت جملے
اپنی تقریر میں نائب وزیراعظم نے غزہ کو ’’عالمی ضمیر کا قبرستان‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس مسئلے کے حل میں عالمی ادارے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متعدد قراردادیں منظور ہو چکی ہیں مگر عملی نتائج سامنے نہیں آئے۔ اس پس منظر میں انہوں نے دلیل دی کہ جب بین الاقوامی ادارے اور روایتی فورمز ناکام ہوں تو مختلف ممالک مل کر شراکت داری کی جس سے مسئلے کے حل کے لیے بہتر موقع میسر آ سکے گا۔
تنقید کا جواب: ’’تماشا دیکھنا نہیں، کام کرنا ہے‘‘
پارلیمنٹ میں ان پر اٹھنے والی تنقید کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ یا تو پاکستان اکیلا اتنی صلاحیت رکھتا ہو کہ وہ جنگ بند کرا دے، ایسی صورت میں قربانی دینے کو تیار ہے، ورنہ متبادل راستہ اختیار کرنا ہوگا جہاں بین الاقوامی کوششیں مسئلے کے حل کی طرف راہ ہموار کریں۔ ان کے الفاظ میں:
’’کیا ہم نے تماشا دیکھنا ہے، سیاست کرنی ہے یا کام کرنا ہے؟‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ یہ کارروائی ذاتی مفاد یا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ ایک اسلامی اور اخلاقی ذمہ داری ہے جو پاکستان نبھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بین الاقوامی مذاکرات میں پاکستان کا کردار
اسحاق ڈار نے بتایا کہ وہ اور دیگر شرکاء نے بین الاقوامی سطح پر غزہ کے لیے ہنگامی انسانی رسد، قیدیوں کے تبادلے اور ایک مستقل سیاسی حل کے لیے مشاورتی عمل کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کوشش کا مقصد اقوامِ متحدہ اور دوسرے فورمز کی ناکامی کے بعد بھی مسئلے کے حل کے لیے ممکنہ طور پر موثر راستہ تلاش کرنا تھا۔
پارلیمانی بحث اور سیاسی تناظر
قومی اسمبلی میں اس معاملے پر ہونے والی بحث میں اپوزیشن اور اکثریتی جماعت دونوں جانب سے سوالات اور تشویشات سامنے آئیں، خاص طور پر اس بات پر کہ آیا کسی بیرونی پلان کو پاکستان کی باضابطہ پالیسی کے طور پر قبول کیا گیا یا نہیں۔ وزیرخارجہ نے یہ خدشات دور کرنے کی کوشش کی اور دفعِ ارادہ کیا کہ پاکستان کی سرکاری پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
نتیجہ اور آگے کا راستہ
اسحاق ڈار کے بیان نے واضح کیا کہ پاکستان بین الاقوامی مذاکرات میں فلسطین کے حق کے تحفظ اور انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی کے لیے اپنا کردار جاری رکھے گا، مگر کسی بھی منصو بہ یا معاہدے کو پاکستان کی حتمی پالیسی قرار دینے سے قبل اسے ملکی اصولوں، بین الاقوامی قانون اور فلسطینی قیادت کے مفادات کے مطابق جانچا جائے گا۔ انہوں نے بار بار کہا کہ پاکستان کا موقف قائداعظم کے نظریات کے مطابق برقرار ہے اور وہ فلسطینی عوام کی حمایت میں مؤقف پر قائم رہے گا۔



