
سیاسی تناؤ کے ماحول میں اہم پیش رفت: وفاقی وفد کی صدر آصف علی زرداری سے نواب شاہ میں ملاقات، ملکی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب گزشتہ چند ہفتوں سے حکمران اتحاد کی دو بڑی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین بیانات کی گرما گرمی اور پالیسیوں پر اختلاف رائے سامنے آ رہا ہے۔
رپورٹ وائس آف جرمنی نیوز ڈیسک پاکستان
نواب شاہ :پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں سے جاری سیاسی کشیدگی اور بیانات کی تلخیوں کے بعد وفاقی حکومت نے سیاسی رابطہ کاری کا عمل تیز کر دیا ہے۔ اسی سلسلے میں بدھ کی شب وفاقی حکومت کے اعلیٰ سطحی وفد نے صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے ان کی رہائش گاہ نواب شاہ میں اہم ملاقات کی ہے، جس میں ملکی سیاسی، سیکیورٹی اور علاقائی معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے کی
ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے باضابطہ بیان کے مطابق، وفاقی وفد کی قیادت نائب وزیرِاعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی، جبکہ وفد میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی شامل تھے۔ اس اہم ملاقات میں علاقائی و عالمی امور، ملک کی سیاسی فضا، سیکیورٹی صورتحال، اور بین الاقوامی سفارتی سرگرمیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر بریفنگ
بیان کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے صدرِ مملکت کو حال ہی میں نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس، عالمی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں، اور علاقائی جغرافیائی سیاسی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب گزشتہ چند ہفتوں سے حکمران اتحاد کی دو بڑی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین بیانات کی گرما گرمی اور پالیسیوں پر اختلاف رائے سامنے آ رہا ہے۔
سیاسی دراڑ کی وجوہات: نہری نظام، امدادی رقوم اور اختیار کی تقسیم پر اختلافات
موجودہ تناؤ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پانی کے معاملے پر پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا:
"میرا پانی، میرا صوبہ، میرے وسائل — آپ کو اس سے کیا مسئلہ ہے؟”
اس سخت بیان کے جواب میں 30 ستمبر کو قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے برملا اظہار کیا کہ:
"وزیراعلیٰ پنجاب کا بیان افسوسناک ہے، دریائے سندھ صرف پنجاب کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے، اور سب کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔”
سیاسی کشیدگی کا ایک اور پہلو سیلاب متاثرین میں امدادی رقوم کی تقسیم کے معاملے پر بھی نظر آیا، جب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ذریعے امداد کی تقسیم پر دونوں جماعتوں میں کھینچا تانی دیکھنے میں آئی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے دیگر ذرائع سے امداد کی فراہمی کی بات کی گئی، جسے پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی مینڈیٹ اور عوامی فلاحی پروگرام پر حملہ تصور کیا۔
سیاسی اعتماد سازی کے لیے رابطہ کاری کی کوششیں
ان تمام امور کے پیش نظر، صدر آصف زرداری اور حکومتی وفد کی یہ ملاقات سیاسی کشیدگی کو کم کرنے، غلط فہمیوں کو دور کرنے، اور حکومتی اتحاد میں اعتماد بحال کرنے کی ایک اہم کوشش قرار دی جا رہی ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق، حالیہ بیانات اور اختیارات کی تقسیم پر ابھرتے ہوئے اختلافات نے حکمران اتحاد میں دراڑ کی کیفیت پیدا کر دی تھی، جسے اعلیٰ سطحی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صدر آصف زرداری کا کردار – مفاہمت کی سیاست کی علامت
صدر آصف زرداری، جو کہ ماضی میں بھی "مفاہمت کی سیاست” کے بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں، ایک بار پھر سیاسی تناؤ کو ختم کرنے اور قومی مفاہمت کی فضا قائم کرنے کے لیے متحرک نظر آ رہے ہیں۔ ملاقات کے دوران انہوں نے قومی یکجہتی، جمہوری تسلسل اور آئینی اداروں کے استحکام کی اہمیت پر زور دیا۔
سیاسی منظرنامہ – آگے کیا؟
اگرچہ ملاقات کے بعد کسی باضابطہ معاہدے یا پریس کانفرنس کا انعقاد نہیں کیا گیا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان جاری تنازعات پر خاموش سفارتکاری جاری رہے گی اور جلد ہی وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف زرداری کے درمیان براہ راست ملاقات بھی متوقع ہے تاکہ سیاسی ماحول کو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔
اختتامیہ: قومی اتحاد وقت کی ضرورت
موجودہ علاقائی و عالمی صورتحال، معیشت کی نازک حالت اور بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے اور اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ حکومتی اتحاد میں موجود سیاسی دراڑیں نہ صرف حکمرانی کے عمل کو متاثر کر سکتی ہیں بلکہ عوامی اعتماد کو بھی متزلزل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔لہٰذا، اس اعلیٰ سطحی ملاقات کو سیاسی استحکام کے ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو ممکنہ طور پر حکومت کو متحد رکھنے اور عوامی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔