پاکستاناہم خبریں

’’دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ہے‘‘ 14ہزار 500 سے زائد آپریشنز، سالِ رواں میں ہلاک شدگان کی تعداد گزشتہ دہائی سے زائد، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری

رواں سال میں مارے جانے والے خارجی دہشت گردوں کی تعداد گزشتہ 10 سال کے اوسط سے بھی زیادہ ہے، جو فورسز کی موثر کارروائیوں کی عکاس ہے

پشاور نمائندہ وائس آف جرمنی اردو نیوز:

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شریف چوہدری نے جمعہ کو پشاور میں پریس کانفرنس میں کہا کہ «ہم سب کو مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔ پاک افواج اس عزم کے ساتھ اگے بڑھے ہوئی ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے تک وہ نہیں رکے گی۔» انہوں نے واضح کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے ملک میں دہشت گرد عناصر کے خلاف وسیع اتحادی آپریشنز انجام دیے ہیں اور ملک بھر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ہر ضروری اقدام کیے جائیں گے۔

آپریشنز اور کارکردگی — اعداد و شمار اور حقائق

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں مجموعی طور پر 14,500 سے زائد آپریشنز کیے گئے ہیں۔ اُن کے بقول رواں سال میں مارے جانے والے خارجی دہشت گردوں کی تعداد گزشتہ 10 سال کے اوسط سے بھی زیادہ ہے، جو فورسز کی موثر کارروائیوں کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے تحت دشمن کے خلاف کیے گئے کارروائیوں نے واضح نتائج دیے ہیں اور اس سال ساتھانی کامیابیاں حاصل ہوئیں جن میں متعدد اہم دہشت گرد کمانڈرز کے خاتمے سمیت بڑی نیٹ ورکس کا خاتمہ شامل ہے۔

افغانستان کو بیس بنانے کا الزام اور ثبوت

اخبار نویسوں کے سوالات کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے بیس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے شواہد اور ثبوت موجود ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس بات کو اجاگر کیا جا چکا ہے اور پاکستان نے اپنی سرحدی سالمیت و عوام کی جانوں و مال کے تحفظ کے لیے جو اقدامات ضروری سمجھے وہ کیے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس معاملے میں دوستی و ہمسایہ تعلقات کے باوجود سلامتی کے مفادات مقدم رکھے جائیں گے۔

نیشنل ایکشن پلان (NAP) — عملدرآمد کی اہمیت

ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کی کمی کو دہشت گردی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ قرار دیا۔ اُن کے بقول:

  • NAP کا پہلا نکتہ دہشت گردوں کو آپریشنل طور پر ختم کرنا تھا — اس پر واضح پیش رفت ہوئی اور اس سال 900 سے زائد دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا۔

  • دوسرا نکتہ میڈیا اور سیاستدانوں کے ذریعے مضبوط بیانیہ قائم کرنا تھا، مگر بعض حلقوں کی جانب سے بات چیت اور نرم روئیے کے مطالبات نے بیانیہ میں یکسانیت پیدا کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے استفسار کیا کہ اگر ہر مسئلے کا حل محض بات چیت ہے تو تاریخِ انسانی میں جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف متحدہ، واضح اور سخت بیانیہ کی ضرورت ہے۔

  • تیسرا نکتہ غیرقانونی سپیکٹرم بشمول بھتہ خوری اور منشیات کے نیٹ ورکس کا خاتمہ تھا؛ تاہم ایک منظم حکمتِ عملی نہ اپنانے کے باعث دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو "اسپیس” ملتی رہی۔

سہولت کاروں کے لیے تین آپشنز — واضح انتباہ

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مبینہ سہولت کاروں کو تین واضح آپشنز دیے ہیں:

  1. سہولت کار خود خوارج (دہشت گردوں) کو ریاست کے حوالے کریں؛

  2. دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کریں؛

  3. اگر وہ دونوں راستے اختیار نہ کریں تو ریاست اُن کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار رہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اب سٹیٹس کو نہیں چلے گا اور جو بھی کسی قسم کی سہولت کاری میں ملوث ہوگا اسے قانون کے مطابق سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔

سیاست، میڈیا اور بیانیہ

ڈی جی آئی ایس پی آر نے میڈیا اور سیاسی حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات میڈیا اور سیاستدان مل کر ایسا بیانیہ بناتے ہیں جس سے دہشت گردی کے مسئلے کی سنگینی اور قومی اتفاق رائے متاثر ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی ایک قومی خطرہ ہے اور اس کے خلاف بیانیہ یکساں اور مضبوط ہونا چاہیے تا کہ عوام میں غلط پیغامات نہ جائیں اور آپریشنل کوششوں کو سیاسی ادوار میں نہ گھسیٹا جائے۔

علاقائی اور بین الاقوامی رابطے

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ افغانستان کے معاملے پر سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کے ذریعے بھی رابطے اور بات چیت ہوئی ہیں، اور سعودی عرب کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدے کے معاملے پر بھی مشاورت ہوئی ہے۔ اُنہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ دوستی کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی پاکستان اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا پابند ہے۔

فوجی اور سویلین کوآرڈینیشن کی ضرورت

ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومت، سیکیورٹی اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، میڈیا اور سیاسی قیادت پر زور دیا کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کی رو سے مکمل باہمی ہم آہنگی اور تعاون کو یقینی بنائیں، تاکہ دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو ختم کیا جا سکے۔ اُنہوں نے کہا کہ فوجی آپریشنز کے علاوہ قانون سازی، سوشل پالیسیز، اقتصادی مواقع، اور قصبہ جاتی ترقیات بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری ہیں۔

نتیجہ: عزم، یکجہتی اور عملدرآمد

ڈی جی آئی ایس پی آر کے اصرار اور اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مسلسل آپریشنز کر رہے ہیں اور قوم کو بھی ایک مضبوط، واضح اور متحدہ بیانیے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے ملک کے ہر طبقے پر زور دیا کہ وہ اس جنگ میں ریاست کا ساتھ دیں کیونکہ یہ مسئلہ صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم کا مشترکہ چیلنج ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button