
پاکستان کی اہم سرحدی گزرگاہوں پر کسٹم کلیئرنس معطل: سیکیورٹی خدشات کے باعث تجارتی سرگرمیاں متاثر
ان سٹیشنوں پر تعینات کسٹمز انسپکٹرز اور دیگر عملے کی اکثریت نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر عارضی طور پر اپنے ہیڈکوارٹرز کو رپورٹ کر دیا ہے
اسلام آباد : پاکستان کے مختلف اہم سرحدی گزرگاہوں پر کسٹم کلیئرنس معطل کر دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں برآمدات اور درآمدات دونوں کی سرگرمیاں شدید متاثر ہو گئی ہیں۔ 12 اکتوبر 2025 سے طورخم، غلام خان، خرلاچی اور انگور اڈہ کے کسٹمز بارڈر سٹیشنوں پر کسٹم کلیئرنس کا عمل رکا ہوا ہے، جس کی وجہ افغان سرحد کے قریب سیکیورٹی خدشات ہیں۔ ان خدشات کا سبب افغان طرف سے ہونے والی بلا اشتعال جارحیت ہے، جس نے پاکستان کے کسٹمز انسپکٹرز اور دیگر عملے کی سیکیورٹی کو سنگین خطرات میں ڈال دیا ہے۔
سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے کسٹم عملے کی نقل مکانی
پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، افغان طرف سے ہونے والی حالیہ جارحیت کے نتیجے میں کسٹم عملے کی سیکیورٹی شدید خطرات کا شکار ہو گئی۔ ان سٹیشنوں پر تعینات کسٹمز انسپکٹرز اور دیگر عملے کی اکثریت نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر عارضی طور پر اپنے ہیڈکوارٹرز کو رپورٹ کر دیا ہے۔ تاہم، ان سٹیشنوں پر ایک چھوٹی سی تعداد کا عملہ اب بھی موجود ہے تاکہ حالات کے معمول پر آتے ہی کسٹم کلیئرنس کا عمل دوبارہ شروع کیا جا سکے اور تجارت کے لیے سرحدیں کھول دی جا سکیں۔
پہنچنے والی درآمدات کو کلیئر کرنے کی کوششیں
پاکستان کے ناردرن ریجن اپریزمنٹ کے تحت ان سرحدی گزرگاہوں سے متعلق تمام درآمدی کنسائنمنٹس کو کلیئر کر دیا گیا ہے جو سرحد بند ہونے سے قبل ان سٹیشنوں پر پہنچ چکی تھیں۔ اس اقدام کا مقصد بازار میں اشیائے ضروریہ کی قلت کو دور کرنا اور تجارت کو معمول پر لانا ہے۔ اس دوران 363 درآمدی گاڑیوں کو کلیئر کیا گیا ہے جن پر جی ڈیز (گڈز ڈیکلریشن) فائل کی جا چکی تھی، تاکہ تجارتی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکیں اور ضروری اشیاء کی فراہمی میں رکاوٹ نہ ہو۔
طورخم اور چمن بارڈر پر موجود گاڑیاں
طورخم بارڈر، جو شمالی پاکستان میں سب سے زیادہ کارگو ہینڈل کرتا ہے، پر اس وقت 255 برآمدی گاڑیاں اور 24 درآمدی گاڑیاں ابھی تک ٹرمینل پر کھڑی ہیں۔ اس کے علاوہ، جمرود-لنڈی کوتل روڈ پر 200 گاڑیاں پھنس گئی ہیں جو سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔ ان گاڑیوں میں سے بیشتر مال بردار گاڑیاں ہیں جو ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے تھیں، اور ان کی روک تھام سے نہ صرف تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں بلکہ کاروباری نقصان بھی ہو رہا ہے۔
چمن بارڈر پر کسٹم کلیئرنس معطل
دوسری طرف، چمن بارڈر پر بھی 15 اکتوبر 2025 سے کسٹم کلیئرنس کا عمل معطل ہے۔ اس سرحدی گزرگاہ پر ابھی تک 5 درآمدی گاڑیاں اور 25 برآمدی گاڑیاں کلیئر نہیں ہو سکی ہیں۔ اس کے باوجود، درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان نے جی ڈی فائل کرنے سے گریز کیا ہے، جس کی وجہ سے کلیئرنس میں مزید تاخیر ہو رہی ہے۔
ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے 500 گاڑیاں سرحد عبور کرنے کے منتظر
اس کے علاوہ، تقریباً 500 ٹرانزٹ ٹریڈ کارگو لے جانے والی گاڑیاں طورخم اور چمن بارڈر پر سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔ ان گاڑیوں کا تعلق مختلف ممالک سے ہے، اور ان کی روک تھام سے نہ صرف تجارتی روابط متاثر ہو رہے ہیں بلکہ ان گاڑیوں میں موجود سامان بھی اپنے مقاصد تک پہنچنے میں تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔
معاشی اثرات اور تجارتی روابط پر اثرات
اس موجودہ صورتحال نے پاکستان کے تجارتی روابط کو شدید متاثر کیا ہے۔ سرحدوں کی بندش اور کسٹم کلیئرنس میں تاخیر سے پاکستان کے مقامی بازار میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان اشیاء کی جو افغان بارڈر سے درآمد کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، برآمد کنندگان کو بھی اپنی مصنوعات کی روانگی میں مشکلات کا سامنا ہے، جس سے قومی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی حکومت اور متعلقہ حکام اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور سیکیورٹی خدشات کے باوجود تجارتی سرگرمیوں کو جلد از جلد دوبارہ بحال کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ سرحدی گزرگاہوں پر موجود کسٹم عملے کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں تاکہ حالات معمول پر آئیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت جاری رہ سکے۔
عوامی ردعمل اور حکومت کے اقدامات
اس دوران پاکستان کے کاروباری حلقوں میں اضطراب پایا جا رہا ہے۔ تاجروں اور کاروباری افراد نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ان سرحدی گزرگاہوں پر سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنائیں تاکہ تجارتی عمل دوبارہ معمول پر آ سکے۔ حکومت نے یقین دلایا ہے کہ وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے گی اور تجارتی تعلقات کو جلد از جلد بحال کیا جائے گا۔
حکومت پاکستان اس وقت سرحدی سیکیورٹی پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیکیورٹی کے مسائل پر بات چیت کا سلسلہ بھی جاری ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی بہتری کے لیے فنی اور انتظامی اقدامات اٹھائے جا سکیں۔



