مشرق وسطیٰ

استنبول اجلاس: پاکستان اور دیگر مسلم ممالک نے غزہ میں اسرائیلی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت، فوری انسانی امداد اور انخلا کا مطالبہ کیا

"رہنماؤں نے مشترکہ طور پر فلسطینیوں کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت، مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے انخلا اور غزہ کی تعمیر نو پر زور دیا۔"

استنبول: پاکستان اور دیگر مسلم ممالک نے پیر کو غزہ میں اسرائیلی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی اور فلسطینی علاقوں میں فوری انسانی امداد، اسرائیلی افواج کا انخلا اور غزہ کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ مصر، انڈونیشیا، اردن، پاکستان، قطر، سعودی عرب، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کے استنبول میں ہونے والے اجلاس کے بعد سامنے آیا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا جب غزہ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق، 10 اکتوبر کو جنگ بندی کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں 236 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے تین فوجی مارے گئے اور درجنوں حماس جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا۔


پاکستانی موقف اور استنبول اجلاس

پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور دیگر عرب و اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے غزہ میں پائیدار جنگ بندی اور دیرپا امن کے لیے لائحہ عمل پر غور کیا۔ بیان کے مطابق:

"رہنماؤں نے مشترکہ طور پر فلسطینیوں کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت، مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے انخلا اور غزہ کی تعمیر نو پر زور دیا۔”

پاکستان نے اس موقع پر اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق سنہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی، القدس الشریف کو دارالحکومت بنانے والی ایک آزاد، قابلِ عمل اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے اپنے اصولی مؤقف کی بھی توثیق کی۔


ترکی اور دیگر ممالک کا موقف

ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں امریکہ کی حمایت یافتہ جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی بند کرنی چاہیے اور انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی ایک ایسے بعد از جنگ فریم ورک کا خواہاں ہے جس میں فلسطینی خود اپنی حکومت اور سکیورٹی کے ذمہ دار ہوں۔

روئٹرز کے مطابق، اجلاس میں شریک ممالک ابھی بھی اقوام متحدہ کے مجوزہ مینڈیٹ پر کام کر رہے ہیں تاکہ غزہ میں استحکام کے لیے ایک فورس تعینات کی جا سکے، اور اسی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا فوجی بھیجے جائیں یا نہیں۔


غزہ میں انسانی بحران

امریکہ کی حمایت یافتہ جنگ بندی نے دو سالہ جنگ کو روکنے میں مدد دی، جس میں اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ اسرائیلی فوجی کارروائیوں نے غزہ کی ساحلی پٹی کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، جہاں سکول، ہسپتال اور دیگر شہری مقامات بار بار نشانہ بنائے گئے۔

غزہ میں تعلیمی ادارے اور بنیادی سہولیات شدید نقصان سے دوچار ہیں، اور لاکھوں فلسطینی انسانی بحران اور بے گھری کا شکار ہیں۔ استنبول اجلاس میں شریک ممالک نے زور دیا کہ فوری طور پر انسانی امداد کی فراہمی، بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور شہریوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔


امریکہ کے امن منصوبے اور مسلم ممالک کی تجاویز

اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل کے جارحانہ اقدامات، انسانی حقوق کی پامالی اور فلسطینی عوام کی مشکلات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ کسی بھی امن منصوبے کی کامیابی کے لیے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق عمل کرنا ہوگا اور فلسطینی عوام کی خودمختاری اور تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔


اختتامیہ

استنبول میں ہونے والا یہ اجلاس ایک بار پھر عالمی برادری کو یاد دلاتا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور فلسطینی عوام کی زندگیوں اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قیادت نے عالمی سطح پر پائیدار امن، انسانی امداد، اور اسرائیلی افواج کا انخلا پر زور دیا، جبکہ دیگر مسلم ممالک نے بھی اسی مؤقف کی حمایت کی۔

یہ اجلاس اس بات کا عکاس ہے کہ مسلم دنیا میں فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے غزہ میں دیرپا امن قائم کرنے کی راہ تلاش کی جا رہی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button