
ڈیئربورن، مشی گن: ایف بی آئی نے امریکہ میں آئی ایس آئی ایس (داعش) سے متاثر ایک مبینہ ہالووین دہشت گردی کی سازش کو ناکام بناتے ہوئے دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان نے 2015 کے پیرس حملوں جیسی کارروائی کی منصوبہ بندی کی تھی، جس میں 130 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
وفاقی استغاثہ کے مطابق، گرفتار افراد کی شناخت محمد علی اور ماجد محمود کے نام سے ہوئی ہے، جن کی عمریں تقریباً 20 سال بتائی جا رہی ہیں۔ ان پر دہشت گردی کے لیے اسلحہ حاصل کرنے اور منتقل کرنے کی سازش کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اگر الزام ثابت ہو جاتا ہے تو انہیں 15 سال قید اور 2.5 لاکھ ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔
ایف بی آئی کا چھاپہ اور ابتدائی تفتیش
ہالووین کی صبح، ایف بی آئی کی ایک خصوصی ٹیم نے مشی گن کے شہر ڈیئربورن میں چھاپہ مارا — جو امریکہ میں عرب نژاد امریکی شہریوں کی سب سے بڑی آبادی والا شہر سمجھا جاتا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق، چھاپے کے دوران علاقے میں بھاری پولیس نفری تعینات تھی، اور رہائشیوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت دی گئی۔
ایف بی آئی کی شکایت کے مطابق، ملزمان نے ایک خفیہ چیٹ ایپ پر ایک نابالغ اور دیگر افراد کے ساتھ رابطہ رکھا، اور وہ آئی ایس آئی ایس کے نظریات سے متاثر ہو کر امریکہ میں بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
دہشت گردی کے منصوبے کی تفصیلات
شکایت کے مطابق، محمد علی اور ماجد محمود نے متعدد AR-15 طرز کی رائفلیں، شاٹ گن، ٹیکٹیکل گیئر، اور 1,600 سے زائد گولیاں خریدی تھیں۔ ان کے پاس ایک ’فورسڈ ری سیٹ ٹرگر‘ بھی تھا جو نیم خودکار رائفلوں کی فائرنگ کی رفتار بڑھا دیتا ہے۔
ایف بی آئی کے مطابق، علی اور محمود نے اپنی آن لائن گفتگو میں ’’فرانس جیسا ہی کام‘‘ کرنے کا ذکر کیا، اور اپنے منصوبے کو ہالووین کے دن عملی جامہ پہنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
ایجنٹ نے شکایت میں لکھا کہ مشتبہ افراد نے آن لائن چیٹ گروپس میں آئی ایس آئی ایس سے متعلق ویڈیوز اور شدت پسند مواد شیئر کیا، جس سے ان کے نظریاتی جھکاؤ کا پتہ چلتا ہے۔
ممکنہ ہدف اور حملے کا طریقہ
ایف بی آئی کے مطابق، مشتبہ افراد نے فرنڈیل (Ferndale)، مشی گن کے علاقے میں موجود نائٹ کلبوں کا دورہ کیا۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ کلبز جان بوجھ کر LGBTQ+ کمیونٹی کے ارکان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں،‘‘ جس سے حکام کو شبہ ہوا کہ ان حملوں کا ہدف ممکنہ طور پر LGBTQ کمیونٹی ہو سکتی تھی۔
ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ حملے کا منصوبہ کثیر جہتی کارروائی پر مبنی تھا — یعنی ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر حملے — جیسا کہ 2015 کے پیرس حملوں میں ہوا تھا۔
امریکی اٹارنی جنرل اور حکام کا ردعمل
امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی نے ایک بیان میں کہا:
’’ہماری نئی غیر سیل شدہ شکایت آئی ایس آئی ایس سے منسلک دہشت گردی کی ایک بڑی سازش کا انکشاف کرتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:
’’یہ افراد کئی رائفلوں، گولہ بارود اور ایک تفصیلی منصوبے کے ساتھ امریکی سرزمین پر حملے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہم شکر گزار ہیں کہ سیکیورٹی اداروں نے یہ حملہ معصوم جانوں کے ضیاع سے پہلے ہی روک لیا۔‘‘
قانونی کارروائی اور ممکنہ سزائیں
حکام کے مطابق، اگر علی اور محمود پر لگائے گئے الزامات ثابت ہو گئے، تو انہیں 15 سال قید اور 250,000 ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔
ملزم محمود کے وکیل ولیم ’’بل‘‘ سوار نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ ان کے مؤکل ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور مزید تفصیلات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔
پس منظر: آئی ایس آئی ایس سے متاثر حملوں کی تاریخ
ایف بی آئی کی جانب سے یہ کارروائی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ میں آن لائن شدت پسندی اور ’’تنہا بھیڑئے‘‘ طرز کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
داعش نے اس سے پہلے بھی کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، جن میں:
2015 کا پیرس حملہ (130 سے زائد ہلاکتیں)
2016 کا اورلینڈو پلس نائٹ کلب حملہ (49 ہلاکتیں)
اختتامیہ
ایف بی آئی کی بروقت کارروائی نے ایک ممکنہ بڑے سانحے کو ہونے سے پہلے ہی روک دیا۔ تاہم، اس کیس نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ آن لائن شدت پسندی اور دہشت گرد تنظیموں کی سوشل میڈیا پر موجودگی کس طرح نوجوانوں کو متاثر کر رہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ امریکی قومی سلامتی کے لیے سنگ میل حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ذریعے ’’اندرونی شدت پسندی کے خطرات‘‘ پر نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔






