طیبہ بخاریکالمز

"فار ایور وار "کیوں ۔۔۔طیبہ بخاری

٭:’ ’فارایور وار“ کیا، اس کی اصل قیمت کون چکا رہے ہیں ، اور آئندہ کون چکائیں گے ۔۔۔؟

٭:’ ’فارایور وار“ کیا، اس کی اصل قیمت کون چکا رہے ہیں ، اور آئندہ کون چکائیں گے ۔۔۔؟
٭:سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ ہمیں طالبان کی فتح پر جشن نہیں منانا چاہیے تھا۔۔۔ کیوں ؟
کیونکہ عالمی سطح پر اچھا تاثر نہیں گیا
٭:یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمیں طالبان کا ترجمان نہیں بننا چاہئے ۔۔۔کیوں ؟
اس لئے کہ ہم صرف اور صرف پاکستان کے ترجمان ہیں اور ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہونا چاہئے
٭:اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمیں ”گڈ اور بیڈ “کا پتہ ہے۔۔۔
یہ کہنے سے بھی ہم سے پوچھا جا سکتا ہے کہ گڈ کہاں بستے ہیں اور بیڈ کہاں چھپے ہیں
٭:یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کی کامیابی سے امریکہ ”سکتے “ میں ہے
امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں کروڑوں افراد” سکتے “میں ہیں، اس لئے ہمیں محتاط رہنا چاہئے
٭:یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بہکنے والوں کو موقع دینا چاہئے
لیکن بہکے ہوﺅں نے جو جرم کئے ان کا کیا ؟ جرم کی صرف سزا ہونی چاہئے ، معافی کا رواج غلط روایات کو جنم دےگا
٭:یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سقوط کابل امریکہ کیلئے صدمہ، اب قربانی کا بکر اتلاش کر رہا ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں کس نے مشورہ دیا تھا کہ بکرے جیسی حرکتیں کرتے پھریں
٭:یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ واشنگٹن ابھی تک حیرت میں ہے انہیں آخر کار طالبان حکومت تسلیم کرنا ہو گی ، یورپ ، چین اور روس بھی کریں ، ہم پڑوسیوں کی مشاورت سے کریں گے ۔۔۔
سوال یہ ہے کہ واشنگٹن کی حیرت کو ہم کیوں ڈسکس کریں کیوں نشاندہی کریں یا افغانستان میں کسی کی کامیابی اور کسی کی ناکامی کو دنیا کو گنوائیں ۔۔۔۔ہم یہ بھی کیوں کہیں کہ آخر کار طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہو گا ۔۔۔۔ایسا کہنے سے ہمارے حوالے سے بحث شروع ہو سکتی ہے جو کہ عالمی برادری خاص کر امریکہ میں شروع ہو چکی ہے ۔ ۔۔۔اور یورپ ، چین اور روس کو مشورہ کیوں دیں جبکہ ہم ابھی تک طے نہیں کر سکے کہ ہم نے خود کیا فیصلہ کیا ہے؟ ہم تو اپنے ہمسایوں کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ذرا غور کریں کہ ہمارے ہمسائے کون ہیں ؟ بھارت ، افغانستان ، ایران ، چین اور سارک ممالک ۔۔۔بھارت سے ہماری بنتی نہیں ، چین کی بھارت کیساتھ نہیں بنتی ،چین کا افغانستان کے بارے میں موقف عالمی برادری جان چکی ہے اور ہمارے اِن دنوں چین کیساتھ مراسم کیسے ہیں اس پر بھی دنیا کی نظریں ہیں ۔ رہا معاملہ ایران اور افغانستان کا تو وہ پہلے سے عالمی برادری کی طرف انصاف طلب نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں،باقی بچے بے چارے سارک ممالک تو وہ اپنے مسائل میں الجھے اور جکڑے ہیں، کسی کے یا ہمارے کیا کام آئیں گے ؟
ہم یہ سمجھنے کو آخر کیوں تیار نہیں کہ امریکہ اور امریکہ جیسی سوچ رکھنے والے ممالک اپنے مفاد کو دیکھ کرہی طالبان کو تسلیم کریں گے، انہیں ہمارے مفاد یا مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ سقوط کابل کا جشن منانے کی بجائے دنیا کو یہ باور کرایا جاتا کہ پاکستان جو پہلے ہی غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی ،بد امنی ، دہشتگردی، معاشی بد حالی اور عالمی قرضوں میں جکڑا ہے ، 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دئیے ہوئے ہیں مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا جبکہ کئی برسوں سے افغانستان کو خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ پاکستان ہی فراہم کرنے پر مجبور ہے ۔
افغانستان میں ان دنوں کیا کچھ ہو رہا ہے اس کی تفصیلات بیان کرنے سے قبل یہاں ایک خبر بطور مثال پیش کرنا ضروری ہے کہ گذشتہ ماہ بھارتی گجرات کی مندرا بندرگاہ سے3ارب ڈالرز مالیت کی 3ہزار کلو گرام ہیروئن پکڑی گئی ہے ، سب سے اہم انکشاف یہ کہ مندرا بندرگاہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دوست اور فنانسر کے زیرانتظام ہے، منشیات 15ستمبر کو ایران کی بندر عباس پورٹ سے بذریعہ کنٹینر بھارت بھیجی گئی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی حکومت اور منشیات کنٹرول کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے منشیات کا اتنا بڑے پیمانے پر کاروبار کیسے چل رہا تھا ؟ بھارت میں اس خبر کو ”گودی میڈیا “ بھی دکھانے پر مجبور دکھائی دیا ،اپوزیشن جماعتوں خاص کر کانگریس نے ہیروئن کی اتنی بڑی مقدار میں سمگلنگ پہ سوالات اٹھا دئیے ہیں اور جواب دینے کی بجائے بی جے پی ابھی تک خاموش ہے ۔افغانستان میں مودی سرکار کی کیا سرمایہ کاری تھی؟ کیا کار گزاری تھی ؟ ان سب پر ہمیں بھی سوالات اٹھانے چاہئیں تھے۔اس سے بھی بڑ ھ کر ایک اور اہم انکشاف جس پر بھرپور نظر اور فکر کرنی چاہئے تھی وہ یہ کہ اب تو اسرائیلی میڈیا مودی حکومت کو بے نقاب کر رہا ہے ، یہ تبدیلی اچانک نہیں آئی اس کے پیچھے بھی وجوہات ہیں جنکا تفصیلی ذکر پھر کبھی کریں گے فی الحال اسرائیلی اخبار ” دی ہاریٹز “ کی تجزیاتی رپورٹ کا ذکر کرتے چلیں۔ مودی حکومت کے بارے میں ” دی ہاریٹز“ میں تجزیاتی رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ مودی کے بھارت میں 1930ءکی دہائی کے جرمنی کی بازگشت زور پکڑ رہی ہے۔ بھارت کے لیے اصل خطرہ ہندو اکثریت کو بنیاد پرست بنانے سے ہے، بی جے پی بھارت کے لیے سب سے بڑا بنیاد پرستی کا خطرہ ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو بی جے پی کے حمایت یافتہ جتھوں کی قتل و غارت گری کا سامنا ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی مسلمانوں کو نئی سماجی درجہ بندی کی روزانہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے۔ بی جے پی کھلے عام اسلام فوبک، نفرت انگیز مہمات کا استعمال کرتی ہے، دلی میں مسلم دکانداروں اور کاروباری اداروں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔رپورٹ میں حیرت انگیز انکشاف یہ بھی ہوا کہ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے زندہ جلائے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت 1933 ءکے نازیوں کی طرح کاروبار کے بائیکاٹ کے راستے پر گامزن ہے۔۔۔۔۔ہمیں ان سب رپورٹس پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے ، کیونکہ اکیلے افغانستان نہیں پورے خطے پر خاص کر مسلمان ممالک پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔
واپس چلتے ہیں افغانستان کی جانب تو طالبان کی فتح یا سقوط ِکابل کا جشن منانے والوں کو عالمی برادری کے سامنے افغانستان میں جنم لینے والے انسانی المیے کے بارے میں آگاہ کرنا چاہئے تھا ، مسائل کی دلدل میں پھنسے افغان عوام کی حالت زار بیان کرنی چاہئے تھی ۔
افغانستان میں 4 دہائیوں کی جنگ کی ہولناکی دکھانی چاہئے تھی اس ہولناکی کاتخمینہ کھربوں ڈالرز جبکہ جانی نقصان الگ سے ہے۔ جشن منانےکی بجائے یہ بتایا جائے کہ افغانستان کی سرزمین 4 دہائیوں تک جنگ کی آگ میں جھلس رہی ہے، ہولناکی کا اندازہ لگانا ہو تو میدانِ جنگ کے بجائے ہسپتالوں اور بحالی سینٹرز کو دیکھا جائے، جہاں جسمانی اعضا ءسے محروم متاثرین تڑپ رہے ہیں۔۔40 سال، خانہ جنگی اور 2عالمی طاقتوں کے تختہ مشق بننے والے افغانستان کی جنگ کا تخمینہ کھربوں ڈالرز بنتا ہے۔ اس’ ’فارایور وار“ کی اصل قیمت کابل کی پہاڑی کے دامن میں دیکھی جاسکتی ہے۔3 سال کے بچے سے لے کر 70 سال کے بزرگ تک، یہ وہ افغان عوام ہیں جو طاقت کے بارود سے زندہ تو باہر نکلے لیکن زندگی تبدیل ہوگئی۔میدان جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے والے آج یہاں برابر برابر لیٹے ہیں، کسی کا پیر بارودی سرنگ پر پڑا تو کوئی سرحد پار کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنا۔جنگ زدہ علاقوں میں زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے والی عالمی تنظیم ریڈ کراس کے بحالی سینٹر میں، جنگی حالات میں زخمی ہونے والوں کو سالانہ 28 ہزار مصنوعی پیر لگائے جاتے ہیں۔ البرٹو کائیرو نے 30 برسوں میں 5 حکومتیں بدلتے دیکھیں لیکن حالات نہ بدلے۔ مسئلہ صرف مصنوعی ٹانگ یا ہاتھ لگانے کا نہیں، بلکہ زندگی کی طرف ان کی واپسی کا بھی ہے۔اس بحالی سینٹر میں کام کرنے والا 90 فیصد سٹاف اپنی ٹانگوں سے محروم ہے، شاید اسی لیے یہ مصنوعی اعضاءبناتے ہوئے، متاثرین کا دکھ زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔طالبان کی موجودہ حکومت نے ریڈ کراس کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے، یہ جنگ کی ہولناکی کی وہ زندہ مثالیں ہیں، جنہیں دیکھ کر امن کی قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔لیکن ناجانے کون کون یہ قیمت ادا کریں گے افغانستان اکیلا یا پاکستان بھی۔۔۔؟
وزیراعظم عمران خان کا واشنگٹن پوسٹ میں جو مضمون شائع ہوا اس میں انہوں نے لکھا کہ پاکستان کو افغانستان میں جنگ کے نتائج پر مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ وزیر اعظم نے کانگریس میں امریکی نقصان پر پاکستان پر الزام لگائے جانے پر حیرت کا اظہار بھی کیا، جبکہ دہشتگردی کیخلاف امریکی جنگ کی حمایت کے بعد عسکری گروپس نے پاکستانی ریاست کےخلاف جنگ شروع کردی تھی۔ نائن الیون کے بعد آنیوالی افغان حکومتیں افغانوں کی نظروں میں مقام پیدا نہ کرسکیں یہی وجہ تھی کہ افغانستان میں بدعنوان اور ناکام حکومت کیلئے کوئی بھی لڑنے کو تیار نہ تھا۔ کیا 3 لاکھ افغان فورسز کے ہتھیار ڈالنے پر پاکستان پر الزام لگایا جاسکتا ہے،حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان پر الزام لگانے کیلئے بھارت کے ساتھ مل کر جعلی خبریں چلائی جاتی رہیں، بے بنیاد الزامات کے باوجود پاکستان نے سرحد کے بائیو میٹرک کنٹرول اور مشترکہ نگرانی کی پیشکش کی۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو بڑے پیمانے پر مہاجرین اور دہشت گردی جیسے مسائل بڑھیں گے۔
دوسری جانب فغانستان کی تازہ ترین صورتحال کا تجزیہ کریں تو ایک جانب کابل یونیورسٹی میں طالبات کے داخلے پر پابندی کی خبر کی تردید سامنے آئی ہے جبکہ طالبان کی عبوری حکومت نے سابق شاہ محمد ظاہر شاہ کے دور کے آئین کے عارضی نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔مزید برآں امریکی سینیٹر مارکو روبیو (R-FL) نے سینیٹر جم رسچ (R-ID) اور سینیٹ کے 20 ساتھیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کیلئے انسدادِ دہشت گردی، نگرانی اور احتساب ایکٹ پیش کر دیا۔
آخر میں آپ کو اقوام متحدہ کی پیشگوئی بتاتے چلیں جسکا مطالعہ سقوط کابل کا جشن منانے والے ضرور کریں ۔ اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والے حالیہ بحران کے بعد لاکھوں افغان شہری ملک چھوڑ سکتے ہیں جبکہ نصف آبادی امداد کی منتظر ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (سی آر) نے افغان شہریوں کی ہجرت سے متعلق اعداد و شمار کی پیش گوئی کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک سے اپیل کی کہ وہ شہریوں کی حفاظت، بقا ءو سلامتی کے لیے اپنی سرحدیں کھلی رکھیں۔دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے افغانستان کے ہسپتالوں میں ادویات اور افرادی قوت کی کمی کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ افغان شہریوں کی منتقلی کے بعد وہاں میڈیکل سٹاف میں بہت زیادہ کمی ہوسکتی ہے ۔اقوامِ متحدہ کے مطابق صحت کے حکام اور عملے کا افغانستان چھوڑ کر جانا کسی المیے کو جنم دے سکتا ہے افغانستان کی نصف آبادی (ایک کروڑ 80 لاکھ شہریوں) کو امداد کی ضرورت ہے، 4برسوں کے دوران دوسری خشک سالی ہوئی، جس کی وجہ سے افغان بچوں کی نصف تعداد غذائی قلت کا شکار ہوگئی ہے۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جشن منانے والو ۔۔۔۔کسی کے نہیں سب سے پہلے پاکستان کے ترجمان بنو ۔۔۔۔کسی کیخلاف نہیں بھوک کیخلاف لڑو ۔۔۔۔افغان عوام کی حالت ِ زار کی طرف دیکھو ۔۔۔۔خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں اِن کی جانب دیکھو ۔۔۔۔اپنی جانب دیکھو ۔۔۔۔اور ہمیں صرف پاکستان کی ترجمانی کرنی چاہئے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button