
بھارت میں ماؤ نواز باغی کمانڈر مدوی ہدما ہلاک، پولیس نے کہا یہ ایک بڑی کامیابی ہے
لدھا نے بتایا کہ مدوی ہدما وہ کمانڈر تھا جس سے علاقے کے لوگ ’’سب سے زیادہ خوف کھاتے تھے‘‘
نئی دہلی/رائے پور,بین الاقوامی امور ڈیسک (خصوصی رپورٹ)
بھارتی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں ماؤ نواز باغیوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کے سب سے بڑے واقعات میں شامل ایک سرغنہ اور ’’سب سے زیادہ خوفناک‘‘ کمانڈر مدوی ہدما اپنے پانچ مسلح ساتھیوں کے ہمراہ مارا گیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ کارروائی بھارتی سکیورٹی فورسز کی انٹیلی جنس معلومات اور کارروائیوں کا نتیجہ ہے، جو ماؤ نواز عسکریت پسندوں کی طاقت کو کم کرنے کے لیے دہائیوں سے جاری ہے۔

جھڑپ اور کارروائی کی تفصیلات
سینئر پولیس اہلکار مہیش چندر لدھا نے صحافیوں کو بتایا کہ مدوی ہدما ریاست آندھرا پردیش میں پولیس کے ساتھ ایک بڑی جھڑپ میں مارا گیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی راجے اور چار دیگر جنگجو بھی ہلاک ہوئے۔ لدھا نے بتایا کہ مدوی ہدما وہ کمانڈر تھا جس سے علاقے کے لوگ ’’سب سے زیادہ خوف کھاتے تھے‘‘۔ بھارتی حکومت نے اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کی تھی۔
مدوی ہدما اپریل 2010ء میں ریاست چھتیس گڑھ میں ہونے والے ایک بڑے قتل عام کا سرغنہ تھا، جس میں 76 سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ یہ واقعہ بھارتی تاریخ میں ماؤ نواز باغیوں کے ہاتھوں ہونے والے سب سے بڑے قتل عام کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
ماؤ نواز عسکریت پسندوں کی موجودہ صورتحال
رائے پور سے موصولہ رپورٹس کے مطابق بھارت میں سرگرم ماؤ نواز باغیوں نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی کئی عشروں سے جاری مسلح جدوجہد 31 مارچ 2026ء سے ختم کر دیں گے۔ تاہم، باغیوں کی صفوں میں رہنے والے سرکردہ ارکان کی ہلاکتیں ملک کی پولیس فورس کی مسلسل کامیابیوں میں شامل ہیں، جو بائیں بازو کے عسکریت پسندوں کی طاقت کو کم کرنے کے لیے جاری ہیں۔

حکومتی موقف اور بائیں بازو کی سرگرمیوں میں کمی
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ اضلاع کی تعداد 2013ء میں 182 تھی، جو اب کم ہو کر صرف 13 رہ گئی ہے۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کے مطابق ملک میں ماؤ نواز انتہا پسندی کافی حد تک قابو میں آ چکی ہے۔
مدوی ہدما کی شناخت اور خطرناک ماضی
مدوی ہدما عرف عام میں نکسل باغیوں کے ایک ایسے کمانڈر کے طور پر جانے جاتے تھے جس نے کئی دہائیوں تک بھارتی سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے لیے خطرہ پیدا کیا۔ اس کے ہاتھوں کیے گئے قتل عام اور حملے بھارتی پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج رہے۔ اپریل 2010ء کے چھتیس گڑھ واقعے میں 76 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے، جس نے ملک کے اندر اور بیرون ملک بھی ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔
حالیہ کارروائی اور ملکی سکیورٹی
پولیس کے مطابق مدوی ہدما کی ہلاکت بائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف جاری کوششوں میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کارروائی سے نہ صرف پولیس کی سکیورٹی فورسز کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے بلکہ مقامی عوام کو بھی ایک طرح کا تحفظ محسوس ہوا ہے کہ حکومت علاقے میں امن قائم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔

علاقائی اور قومی اثرات
ماہرین کے مطابق مدوی ہدما اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کے بعد ماؤ نواز باغیوں کی کارروائیوں میں مزید کمی متوقع ہے، کیونکہ اس سے گروپ کی قیادت کمزور ہوئی ہے اور ان کی عسکری کارروائیوں کی صلاحیت محدود ہو گئی ہے۔ حکام نے اس موقع پر عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون جاری رکھیں تاکہ ملک کے مختلف علاقوں میں پائیدار امن قائم کیا جا سکے۔
خلاصہ
مدوی ہدما کی ہلاکت اور اس کے ساتھیوں کی موت بھارت میں ماؤ نواز باغیوں کے خلاف جاری پولیس مہم میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار اور ماہرین کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں ماؤ نواز انتہا پسندی کی موجودگی مسلسل کم ہو رہی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں امن قائم کرنے کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں۔



