
رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز،بین الاقوامی ڈیسک
پاکستان کے وزیرِ دفاع نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس کی بقا کا انحصار پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پر ہے۔ وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان پُرامن تعلقات اسی صورت میں ممکن ہیں جب افغانستان کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کرنے والی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ہر طرح کی معاونت مکمل طور پر ختم کر دی جائے۔
افغان طالبان کے دوحہ معاہدے میں امریکا کو بھی ٹھوس ضمانتیں دینے میں ناکامی کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیرِ دفاع نے کہا کہ طالبان سے پاکستان کے حوالے سے ایسی ضمانتیں حاصل کرنا مشکل ہے، کیونکہ افغان طالبان نے ماضی میں عالمی سطح پر بھی وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی پیچیدگیاں
پاکستان اور افغانستان کی تاریخ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بھری ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کی سرحدوں اور ثقافتی تعلقات میں پیچیدگیاں موجود ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعات، تقسیم شدہ قبائل اور سیاسی مداخلت نے تعلقات کو ہمیشہ پیچیدہ بنایا ہے۔
پاکستان کی افغان پالیسی کا آغاز 1978 میں افغان ثور انقلاب کے بعد ہوا تھا، جب پاکستان نے افغانستان میں اسلام پسند گروپوں کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد پاکستان نے افغان مجاہدین کو پناہ دی، جنہوں نے بعد میں طالبان کی شکل اختیار کی۔ طالبان کی حکمت عملی نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ایک اہم جنگی مرکز میں تبدیل کر دیا، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی لہر نے جنم لیا۔
طالبان اور ٹی ٹی پی: ایک پیچیدہ تعلق
پاکستان کی سیکیورٹی حکام نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔ وزیرِ دفاع نے کہا کہ طالبان کی حکومت کا پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپوں کی حمایت جاری رکھنے سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔ طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے عقائد اور مفادات کا رشتہ ہے، جس کے باعث طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
افغان طالبان کے اندرونی مسائل اور کمزور حکومتی ڈھانچے کی وجہ سے پاکستان کے لیے طالبان سے کسی بھی قسم کی ضمانت حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ طالبان نے نہ صرف دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کی ہے بلکہ کئی جہادی، علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات بھی استوار کیے ہیں، جو افغانستان میں مکمل حکومتی کنٹرول کی کمی کی علامت ہیں۔
طالبان کی پالیسیوں کا پاکستان پر اثر
پاکستان کے لیے یہ سوال ہے کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ تعلقات کیسے بہتر بنائے جائیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کو حل کیا جا سکے۔ وزیرِ دفاع نے کہا کہ طالبان کی حکومت کا داخلی عدم استحکام اور دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔ طالبان کی حکمتِ عملی میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو اتحادیوں کے طور پر دیکھنا ایک خطرناک رجحان بن چکا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع نے طالبان حکومت کو واضح پیغام دیا کہ اگر طالبان نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی تو پاکستان کو اپنی سلامتی کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے فوجی کارروائی سمیت تمام آپشنز پر غور کرنا پڑے گا، تاہم یہ کارروائیاں محدود اور متناسب ہونی چاہئیں تاکہ کسی بڑے تنازعے کی نوبت نہ آئے۔
افغانستان کے مسائل کا فوجی حل نہیں
پاکستان کے وزیرِ دفاع نے کہا کہ افغانستان کے مسائل کا فوجی حل نہیں ہے۔ افغانستان میں جاری عدم استحکام، طالبان کے کمزور حکومتی ڈھانچے اور دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے پیش نظر پاکستان کو طالبان کے ساتھ سیاسی اور سفارتی سطح پر بات چیت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو طالبان کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ افغانستان کی بقا اور استحکام کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ تعلقات ختم کریں اور پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھیں۔
پاکستان کو سرحدی کنٹرول، پناہ گزینوں اور تجارت جیسے اہم مسائل پر صبر اور حکمتِ عملی سے بات چیت کرنی چاہیے۔ وزیرِ دفاع نے مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مسائل کا حل صرف بات چیت کے ذریعے ممکن ہے، کیونکہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات اور پاکستان کی حکمتِ عملی
پاکستان کے وزیرِ دفاع نے افغانستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات رکھنے کا حق ہے، لیکن طالبان حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی ذمہ داری بھی نبھانی ہوگی اور پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے والے گروپوں جیسے ٹی ٹی پی اور بلوچ باغیوں کو اپنے علاقے سے نکالنا ہوگا۔
پاکستان کی حکمتِ عملی کا مقصد افغانستان کے اندرونی مسائل میں مداخلت کے بجائے وہاں کے سیاسی استحکام کو فروغ دینا ہے، تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے اور سرحد پار دہشت گردی کو روکا جا سکے۔
نتیجہ
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں، اور طالبان حکومت کے ساتھ ان تعلقات کو بہتر بنانا پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ طالبان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ان کی بقا کا انحصار پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پر ہے، اور اس کے لیے انہیں دہشت گرد گروپوں کی حمایت ختم کرنی ہوگی۔ افغانستان کے مسائل کا حل صرف فوجی کارروائی سے نہیں، بلکہ ایک جامع سیاسی حل سے ہی ممکن ہے، جس میں دونوں ممالک کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔



