
سید عاطف ندیم.پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
پاکستان میں 27ویں آئینی ترمیم کو وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ وکیل محمد شعیب کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ ترمیم بدنیتی پر مبنی ہے اور اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم مفادِ عامہ میں نہیں کی گئی اور اس کا عوامی مفاد سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
درخواست گزار کا مؤقف
درخواست گزار محمد شعیب نے عدالت میں جمع کروائی گئی درخواست میں کہا ہے کہ اس ترمیم کا ملک میں زیرِ التوا 25 لاکھ مقدمات سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترمیم کا مقصد عوامی مسائل کے حل کے بجائے مفادات کو پورا کرنا ہے اور یہ عوام کے مفاد میں نہیں۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ اس ترمیم سے متوازی نظامِ انصاف کا قیام ممکن ہو گا، جو عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔
وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ 27ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ یہ کسی بھی جواز کے بغیر عوامی مفاد کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
27ویں آئینی ترمیم کا پس منظر
یاد رہے کہ 27ویں آئینی ترمیم 13 نومبر 2023 کو پارلیمنٹ سے منظور ہوئی تھی، جسے بعد ازاں قانون کا درجہ حاصل کر گیا۔ اس ترمیم پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی، خاص طور پر اس ترمیم میں عدلیہ اور فوج میں بڑے ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں کی تجویز دی گئی تھی۔
آئینی ترمیم کے تحت عدلیہ میں تبدیلیوں کے حوالے سے مخصوص اختیارات میں رد و بدل کیے گئے ہیں، جب کہ فوجی اداروں کے اختیارات میں بھی کچھ تبدیلیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ قانونی حلقوں، سابق اور موجودہ ججوں نے اس ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت
27ویں آئینی ترمیم پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل آیا تھا۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کی جماعت اس آئینی ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں جے یو آئی کے ارکان نے اس ترمیم کی مخالفت کی تھی اور اس موقف کی توثیق مرکزی شوریٰ نے کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ترمیم کا مقصد عدلیہ اور فوج میں تبدیلیاں لانا تھا جو کہ آئین کی روح کے خلاف ہے اور اس سے نہ صرف جمہوریت بلکہ عدلیہ کی آزادی کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ان کے مطابق، اس ترمیم سے پاکستان میں جمہوریت اور آئینی اداروں کی آزادی متاثر ہوگی۔
آئینی ترمیم کے خلاف قانونی جنگ
وفاقی آئینی عدالت میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر کی گئی درخواست نے ایک نئی قانونی جنگ کا آغاز کر دیا ہے، جس میں آئینی ماہرین اور سیاسی حلقے اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا یہ ترمیم آئین کے مطابق ہے یا نہیں۔
پاکستان کے آئین کے تحت، کسی بھی آئینی ترمیم کی قانونی حیثیت کا تعین عدالتوں کے ذریعے کیا جاتا ہے اور اس درخواست کے بعد آئینی عدالت میں اس ترمیم کے جواز پر فیصلہ متوقع ہے۔
ترمیم کی اہمیت اور اثرات
27ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ اور فوج میں بڑی تبدیلیوں کی تجویز دی ہے، جس کے بعد مختلف حلقوں میں اسے ایک بڑی آئینی اور قانونی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ ترمیم میں شامل اہم نکات میں عدلیہ کی آزادی پر اثر انداز ہونے والے اقدامات، فوجی اداروں کے اختیارات میں رد و بدل، اور دیگر سیاسی و سیکیورٹی پالیسیوں میں ترامیم شامل ہیں۔
اگرچہ حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ یہ ترمیم ملک میں عدلیہ اور فوج کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے کی گئی ہے، تاہم اپوزیشن جماعتوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
آئینی عدالت کی کارروائی کا امکان
آئینی عدالت میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر کی گئی درخواست کے بعد اب یہ معاملہ عدالت کے سامنے ہے، جہاں اس ترمیم کے آئین کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس فیصلے کا ملک کی سیاست اور آئینی نظام پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اختتام: وفاقی آئینی عدالت میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر کی گئی درخواست نے ایک نئی قانونی بحث کا آغاز کیا ہے، جس میں آئینی ماہرین اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ آئندہ چند ہفتوں میں عدالت کی جانب سے اس ترمیم کے جواز پر فیصلہ متوقع ہے، جس سے ملک کے آئینی اور سیاسی مستقبل پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔



