
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا ایف بی آر کی نئی ٹیکس ہدایات پر سخت احتجاج نجی طبی شعبے کو ’’دباؤ‘‘ میں لانے کی کوشش ناقابل قبول قرار
ایف بی آر نے 2 دسمبر 2025 کو جاری ایک باضابطہ خط (حوالہ نمبر 987) میں طبی شعبے کو ’’حقیقی آمدنی چھپانے والا‘‘ سیکٹر قرار دیتے ہوئے سخت اقدامات کی ہدایات کی تھیں۔
قاسم بخاری.پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کےساتھ
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ریجنل ٹیکس آفس فیصل آباد کی جانب سے جاری تازہ ہدایات پر شدید تشویش اور ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات ڈاکٹروں اور نجی طبی اداروں کو ’’ٹیکس تعمیل کے نام پر ہراساں کرنے‘‘ کے مترادف ہیں۔
ایف بی آر کی 2 دسمبر 2025 کی ہدایات پر اختلاف
ایف بی آر نے 2 دسمبر 2025 کو جاری ایک باضابطہ خط (حوالہ نمبر 987) میں طبی شعبے کو ’’حقیقی آمدنی چھپانے والا‘‘ سیکٹر قرار دیتے ہوئے سخت اقدامات کی ہدایات کی تھیں۔ ان میں شامل ہیں:
سیکشن 177 اور 175C کے تحت جبری آڈٹ
نجی کلینکس اور ہسپتالوں کی فوری نگرانی
مریضوں کی فیسوں کا ریکارڈ حاصل کرنے کے اقدامات
سرجریز، او پی ڈیز اور روزانہ آمدنی پر سرویلنس
پی ایم اے کے مطابق یہ طور طریقے ’’انتہائی جارحانہ‘‘ ہیں اور ڈاکٹرز کو ایک کاروباری طبقے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پی ایم اے کا مؤقف: ڈاکٹر تاجر نہیں، خدمت گزار ہیں
پی ایم اے نے ان ہدایات کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر نے میڈیکل پریکٹس کو محض منافع کمانے والی سرگرمی سمجھ کر پالیسی سازی کی ہے، جو کہ ’’غیر منصفانہ‘‘ اور ’’غیر حساس‘‘ طرز عمل ہے۔
ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے بیان میں کہا:
’’ڈاکٹر روزانہ جانیں بچاتے ہیں، وہ انسانیت کی خدمت کرنے والے افراد ہیں۔ انہیں کاروباری طبقہ سمجھ کر ٹریٹ کرنا ناانصافی اور صحت کے پورے نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘
پی ایم اے کے مطابق ایسے اقدامات ڈاکٹروں کے حوصلے پست کریں گے اور صحت عامہ پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
سرکاری صحت کی ناکافی سہولیات — نجی شعبے پر بوجھ بڑھنے کا خدشہ
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان میں پہلے ہی سرکاری صحت کی سہولیات محدود ہیں، ایسے میں نجی شعبہ خصوصاً فیملی فزیشنز عوام کو بنیادی صحت کی سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پی ایم اے کے مطابق ایف بی آر کے سخت اقدامات نجی شعبے کے کام کو متاثر کر سکتے ہیں جس کا نقصان براہ راست عوام کو ہوگا۔
ڈاکٹروں پر مالی بوجھ پہلے ہی بہت زیادہ ہے
پی ایم اے نے نشاندہی کی کہ ڈاکٹر پہلے ہی کئی مالی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جن میں شامل ہیں:
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) فیس
صوبائی ہیلتھ کیئر کمیشن فیس
ایکسائز ڈیوٹی
سروسز پر سیلز ٹیکس
باقاعدہ انکم ٹیکس
ایسے میں مزید نگرانی، سخت آڈٹ اور سرویلنس ’’غیر ضروری دباؤ‘‘ ثابت ہوں گے۔
پی ایم اے کے تین اہم مطالبات
ایسوسی ایشن نے حکومتِ پاکستان اور ایف بی آر سے تین بڑے مطالبات پیش کیے:
ڈاکٹروں اور طبی اداروں کے خلاف جارحانہ سروے اور آڈٹ کی ہدایات فوری طور پر واپس لی جائیں۔
حکومت غیر ضروری اخراجات کم کرے اور ضروری سروس فراہم کرنے والوں پر اضافی بوجھ نہ ڈالے۔
ڈاکٹروں کو ٹیکس میں ریلیف دیا جائے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں مؤثر انداز میں سرانجام دے سکیں۔
ڈاکٹر عبدالغفور شورو کا بیان
پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے واضح کیا کہ ایسوسی ایشن ڈاکٹر برادری کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے۔ انہوں نے کہا:
’’ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تادیبی اقدامات کے بجائے تعاون، ہمدردی اور مشاورت کی پالیسی اپنائے۔ صحت کے شعبے کو دباؤ میں لا کر مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔‘‘
پی ایم اے نے امید ظاہر کی کہ حکومت اس معاملے پر فوری نظرِ ثانی کرے گی تاکہ ڈاکٹروں اور صحت کے نظام میں مزید بے چینی پیدا نہ ہو۔



