حیدر جاوید سیدکالمز

کانٹے پلکوں سے چُننا پڑیں گے …حیدر جاوید سید

ہم جب تک اس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی زحمت نہیں کریں گے مسلہ یا یوں کہہ لیجے پیدا ہوئے بگاڑ کا مستقل حل تلاش نہیں کرسکیں گے

بھڑوں کے چھتے میں پتھر مارنے کا شوق بالکل نہیں لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سب کو اپنی اپنی ( منجی ) چارپائی کے نیچے ڈانگ پھیرنی ہی ہوگی آج نہیں تو کل البتہ جتنی تاخیر ہوگی نقصان بڑھتا جائے گا یہاں سادھو سنت یا پیرانِ پیر کوئی نہیں نہ گنگا نہائے ہوئے ہیں
دوسری بات یہ ہے کہ آپ یا ہم کانٹے پلکوں سے چُننے پر مجبور ہیں اب آنکھیں زخمی ہوں خون رسے یا بینائی جائے کانٹے چُننا ہوں گے تبھی حال بہتر ہوگا اور اگلی نسلوں کیلئے راستہ آسان اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہاں ہم سے مراد ہم سب ہیں اس کے لئے تیار ہیں ؟ کم از کم مجھے ایسا لگتا ہے کہ تیاری تو دور کی بات ہے سوچنے کی زحمت کرنے کو بھی آمادہ نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عمومی مزاج یہ ہے کہ معصوم سا بچہ گالی دے تو اول اول بڑا لاڈ آتا ہے ہم کہتے ہیں میرا سوہنا پھر کہنا جب بچہ گالی کو عادت بنالے تو سر پکڑ کر روتے ہیں تب بھی ہم اپنی غفلت اور سستے چسکوں کا اعتراف کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر ذمہ داری ٹھونستے ہیں
یہی اصل خرابی ہے اس خرابی کا ایک ہی علاج ہے وہ یہ کہ ہم سب اپنے اپنے حصے کی غفلت اور چسکے بازی کا اعتراف کریں تمہید طویل ہوگئی لیکن مجھے امید ہے کہ تہمیدی سطور میں جو عرض کیا ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے
مجھے باردیگر یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ سیاسیات تاریخ اور صحافت کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے ان کالموں میں یہی عرض کرتا آرہا ہوں کے سیکورٹی سٹیٹ کی طبقاتی جمہوریت کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں ان ضرورتوں سے کاشت ہوئے لچھنوں سے شرفا پناہ مانگتے ہیں لیکن وہ جو کل تک ان لچھنوں پہ داد کے ڈونگرے برساتے ہوئے باچھیں کھلائے ہوئے تھے ان ناراض و پریشان اور برہم کیوں ہیں ؟
ہم جب تک اس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی زحمت نہیں کریں گے مسلہ یا یوں کہہ لیجے پیدا ہوئے بگاڑ کا مستقل حل تلاش نہیں کرسکیں گے
تیسری بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں گالم گلوچ بریگیڈ کی تاریخ گھنگالنے نکلیں گے تو بات دور تلک جائے گی عین ممکن ہے کہ آپ کو یہ سننا پڑھنا پڑے کہ خود بٹوارے کی بنیادوں میں خون کے ساتھ بدکلامی ہوچھا پن اور پگڑیاں اچھالنے کا شوق بھی شامل ہے چلیں ہم اتنی دور نہیں جاتے پھر کیا بات پاکستان قومی اتحاد سے شروع کی جائے یا قومی اتحاد نے جس یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ( یو ڈی ایف ) سے جنم لیا تھا اس سے شروع کریں ؟
فقیر راحموں کہتا ہے یار شاہ تم کن چکروں میں پڑ جاتے ہو ہمارے لوگوں کا حافظہ کمزور ہے رہی تاریخ تو اس میں بھی جو ہمیں پسند ہو وہ درست ہوتا ہے باقی غلط یا یہودوہنود کی سازش ساعت بھر کیلئے رُکیئے مجھے یاد آرہا ہے کہ 2018 کے انتخابی عمل سے قبل لاہور میں ایک اہم محکمے کے علاقائی کماندار سے ملاقات کا احوال ان کالموں میں لکھا تھا اس ملاقات میں ان کماندار صاحب سے عرض کیا تھا کہ ” آج جن گالیوں سے آپ حظ اٹھا رہے ہیں کل ان کا رخ آپ کی طرف بھی ہوسکتا ہے کیونکہ گریبانوں سے کھیلنے اور گالی اچھالنے کا شوق مرض بنتے وقت نہیں لیتا”آپ دیکھ لیجے وہی ہوا اس خدشے کا اظہار بلاوجہ ہرگز نہیں تھا
برسہا برس سے قلم مزدوری کرتے چار اور جودیکھا سنا گاہے بھگتا بھی اسی نے یہ بات سمجھائی کہ محبت ہو یا نفرت ہردو کے اظہار کی کوئی حد نہیں ہوتی
آپ چاہیں تو چار اور نگاہ دوڑا کر دیکھ لیجے یقیناً آپ کو بھی کبھی نہ کبھی ہردو میں سے کسی ایک معاملے سے واسطہ پڑا ہوگا
اب آئیے ہم ڈی جی آئی ایس پی آر کی چندروز قبل کی اس پریس کانفرنس کے مندرجات پر بات کرتے ہیں جس پر تحریک انصاف کے ذمہ داران اور ہمدردوں کا موقف ہے کہ انہیں ( ڈی جی آئی ایس پی آر )کو وہ زبان استعمال نہیں کرنا چاہئے تھی گزشتہ شب پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے پارٹی کے دیگر رہنماوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے مایوسی ہوئی انہوں نے نامناسب الفاظ استعمال کیئے ، ملک کو جبر سے نہیں چلایا جاسکتا سقوط ڈھاکا سے سبق نہیں سیکھا گیا تمام ریاستی ادارے مکالمہ کریں حالات یہی رہے تو مائنس ون نہیں مائنس آل ہوگا ” بیرسٹر گوہر علی خان نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے چند گھنٹے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر کہا تھا ” اداروں اور سیاسی شخصیات کا ایک دوسرے کو ذہنی مریض قرار دینا افسوسناک ہے ” لیکن دیگر رہنماوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وہ اپنے ہی اس بیان کے مندرجات کو بھول گئے حالانکہ ضروری تھا کہ بات اس پر کی جاتی کہ یہ نوبت آخر آئی کیوں ؟
کیا عمران خان کے سوشل میڈیا اکاونٹس سے مسلسل آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ذہنی مریض اذیت پسند شخص اور دیگر نامناسب الفاظ و القابات سے مخاطب کرنا درست تھا اور ہے ؟ بات فقط عمران خان کے سوشل میڈیا اکاونٹس سے استعمال کی جانے والی زبان تک محدود نہیں ان کی بہنیں سوشل میڈیا مجاہدین اور ہمدرد یوٹیوبرز سبھی مسلح افواج بالخصوص بری فوج اور اس کے سربراہ سمیت چنددیگر ذمہ داران کیلئے تواتر کے ساتھ جو زبان استعمال کرتے آرہے ہیں وہ سیاسی و سماجی اخلاقیات کے کس اصول کے تحت درست ہیں ؟
یہاں مجھے اس تلخ حقیقت کی جانب متوجہ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اس افسوسناک صورتحال کی ذمہ داری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے محض یہ کہہ کر دامن نہیں جھاڑا جاسکتا کہ یہ ماضی کے چند افراد کا فیصلہ اور عمل تھا فوج بطور ادارہ ذمہ دار نہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر غلطیوں اور تجربوں کے ساتھ ذاتی جماعت بنوانے اور ففتھ جنریشن وار کا لشکر تیار کرنے کی ذمہ داری قبول کی جائے اس کے بغیر کی جانی والی وضاحتیں اور چھان پھٹک بے معنی ہوں گی
بارِدیگر عرض ہے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی سیاسی و سماجی اخلاقیات کو تباہ کرنے کے ذمہ داروں وہ سیاسی لوگ ہوں یا اسٹیبلشمنٹ کے سبھی کو تسلیم کرنا ہوگا کہ انہوں نے غلط کیا ، کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ ففتھ جنریشن وار کے لشکر کی تربیت اسٹیبلشمنٹ نے خود کی جب اس لشکر کی ریاستی چھتر چھایہ میں تربیت کی جارہی تھی تب ہمیں بتایا جاتا تھا کہ یہ لشکر ریاست کا بازو ہے
ہم جیسے محنت کش اس وقت بھی عرض کرتے تھے کہ ففتھ جنریشن وار کا لشکر بھی ایک دن ریاست بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے گریبانوں سے کھیلے گا جیسے جہادی ٹولے کھیل رہے ہیں بدقسمتی کہہ لیجے ہماری اسٹیبلشمنٹ کے مخصوص حصے نے ناکام تجربات سے سبق سیکھنے کی بجائے نت نئے تجربات کئے اور ہر تجربہ پلٹ کر اس کے گلے پڑا
کہاں سے شروع کروں کہاں پہ ختم ” کے مصداق صورتحال ہے اور ستم یہ ہے کہ ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے خالق و تخلیق ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں
یہ امر ہر کس و ناکس پر دوچند ہے کہ سیکورٹی سٹیٹ میں شوق پورے کیئے جاتے ہیں اس سٹیٹ میں بسنے والی رعایا کے عوام بننے کا ہر راستہ مسدود کیا جاتا ہے نتیجتاً ہم آج جہاں کھڑے ہیں یہ کوئی قابل ذکر مقام ہے نہ قابل فخر ہر طرف دھول ہی دھول اڑرہی ہے سانس لینا دشوار ہوگیا ہے یہ سب کیوں ہوا اس کا آزادانہ تجزیہ کبھی نہیں ہوپائے گا کیونکہ اس وقت ہردوفریق سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف یہ ذہن بنا چکے کہ جو ان کے ساتھ نہیں وہ ریاست کا ٹوڈی ہے یا اس نظام کا جس کے قیام کیلئے تحریک انصاف جدوجہد کررہی ہے
اس فہم کے مسلط کیئے جانے کے باوجود میری رائے یہی ہے کہ صاف سیدھے انداز میں بات کرنا ازبس ضروری ہے 25 کروڑ لوگوں کے سماج کو ہانکا کرکے جہاں لاکھڑا کیا گیا ہے اس سے آگے گہری کھائیاں ہیں اور واپسی کے راستے میں زہریلے کانٹوں والی جھاڑیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے
ہردو سے بچ کر بہتر حالات فضا اور معاملات کیسے ہوں گے یہ بذات خود سوال ہے سچ یہ ہے کہ فقط یہی ایک سوال نہیں سوال در سوال ہیں جواب حاصل کرنے یا کھوٹی کی گئی منزل تک پہنچنے کیلئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے
سب سے پہلے تو سیاسی و سماجی اخلاقیات کو لاحق امراض کا علاج تلاش کرنا ہوگا اس کے بغیر سدھار ممکن نہیں اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر فریق اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کرے یہ درست ہے کہ زبان دانی کے مظاہروں سے بگاڑ بڑھے گا اور یہ بھی درست ہے کہ ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں والی سوچ کسی کی بھی ہو غلط ہے
یہ ہم سب کا ملک ہے نفع نقصان کے ہم سب ذمہ دار اور ساجھے دار ہیں ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ہمدردان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں اس امر کا خیال رکھیں کہ اپنی اپنی حدود میں اصلاح احوال کی جتنی ضرورت ہو وہ کی جائے
تاکہ معاملات بہتر ہو سکیں

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button