یہ بڑے نصیب کی بات ہے…امجد عثمانی
صدیاں بیت گئیں.....دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اسی شان و شوکت سے سجا ہے اور شاہ و گدا،سب در اقدس سے "فیض یاب "ہو رہے ہیں...کسی نے مانگا تو "جھولی" بھر
صدیاں بیت گئیں…..دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اسی شان و شوکت سے سجا ہے اور شاہ و گدا،سب در اقدس سے "فیض یاب "ہو رہے ہیں…کسی نے مانگا تو "جھولی” بھر گئی………کسی کو بن مانگے اتنا ملا کہ وہ "جھوم” اٹھا…….رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالیہ سے” انعام یافتہ "خوش نصیبوں کی قسمت پر زمانے رشک کرتے رہیں گے…..منور بدایونی نے خوب کہا:
جسے چاہا در پہ بلا لیا ،جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے
گریڈ 22کے سابق بیوروکریٹ جناب شکیل درانی بھی ایسے ہی خوش بخت ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کی ایک "جھلک "سے ان کی زندگی سنور گئی ………وہ مٹی سے سونا اور ذرے سے آفتاب بن گئے…….انہوں نے 70کی دہائی میں سی ایس ایس میں ٹاپ کیا اور چیف سیکرٹری،چئیرمین ریلوے اور واپڈا ایسے بڑے عہدوں پر فائز رہے…..شکیل درانی صاحب نے” آدھی صدی” بعد اپنے ایک بڑے ” روحانی راز "سے پردہ اٹھا کر دل و دماغ سر شار کر دیے ہیں……..وطن عزیز کے معتبر صحافی جناب رئوف کلاسرا نے اس” ایمان افروز واقعہ” کو بڑی عقیدت سے اپنے "وی لاگ "کا موضوع بنایا ہے…….
کلاسرا صاحب کے مطابق شکیل درانی نے اپنی کتاب —Frontier Stations—–میں لکھا ہے کہ 1970کی بات ہے کہ سی ایس ایس کی تیاری کے دوران مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی ….آقا کریم نے 14روپے صدقہ کرنے کا حکم دیا اور میں امتحان ٹاپ کر گیا…… درانی صاحب لکھتے ہیں کہ میں "اوسط درجے” کا طالب علم تھا….کبھی کوئی بڑے نمبرز اور گریڈ نہیں لیے…..پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کے بعد سول سروس میں جانے کا سوچا کہ میرے پاس اچھی نوکری کے لیے یہی” ایک آپشن” تھا…….ان دنوں مشرقی اور مغربی پاکستان ایک تھے…..20نشستوں پر 5ہزار امیدوار قسمت آزمائی کر رہے تھے…..میں بھی دن رات تیاری کر رہا تھا کہ ایک غیر معمولی واقعے نے میری زندگی بدل دی…..میں نے ایک رات خواب دیکھا کہ آگرہ کے ماربل پلیٹ فارم پر ہوں….رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آئے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی غریب کو 14روپے صدقہ دیں……اسی اثنا میں میری آنکھ کھل گئی …..صبح اماں کو خواب بتایا تو وہ کہنے لگیں شکرانے کے نفل ادا کریں…..میں مطمئن تھا کہ مجھے کامیابی کی بشارت مل گئی ہے…رزلٹ آیا تو تحریری امتحان اور انٹرویو میں پہلے نمبر پر تھا….مجھے صرف پاس ہونے کی امید تھی لیکن میں حیران کن طور” ٹاپر "بن گیا تھا……دوسری پوزیشن والے امیدوار کے 69نمبر مجھ سے کم تھے……یہ بہت بڑا مارجن تھا…….پھر میں نے سوچا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف14روپے ہی صدقہ کرنے کا حکم کیوں دیا تو مجھے سمجھ آئی کہ اس زمانے میں 14روپوں میں 14سو پیسے ہوتے تھے………سی ایس ایس امتحان کے نمبرز بھی 14سو تھے……اس طرح ایک نمبر کے لیے ایک پیسہ صدقہ دینے کا حکم تھا……….جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ” کرم نوازی”سے میں” سرخ رو” ٹھہرا……..”معجزانہ کامیابی” کے بعد میری زندگی میں عاجزی آگئی اور میں نے پوری سروس کے دوران "صراط مستقیم” پر چلنے اور عوام کی خدمت کرنے کی کوشش کی……
شکیل درانی صاحب کے خواب سے صوفی بیوروکریٹ جناب قدرت اللہ شہاب یاد آگئے…..وہ بھی ان” انعام یافتہ” لوگوں میں شامل ہیں جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں بشارتیں دیں…..شہاب صاحب اپنی کتاب "شہاب نامہ” میں اپنے دو ایسے ہی خوابوں کا ذکر کرتے ہیں……..
وہ لکھتے ہیں:آٹھویں جماعت کے امتحان کے دوران ہی درود شریف کی برکت نے مجھے ایک "ردائے نوری "سے ڈھانپ لیا تھا…..میں نے انہی دنوں ایک خواب دیکھا کہ تاحد نگاہ ایک وسیع و عریض صحرا پھیلا تھا…..میں اس میں کسی جانب تیز رفتاری سے بھاگتا چلا جا رہا تھا…..صحرا کی ریت اتنی گہری تھی کہ میری ٹانگیں گھٹنوں گھٹنوں دھنس جاتی تھیں….بھاگنا محال ہو گیا تو میں گھٹنوں کے بل گھسٹتا آگے بڑھتا گیا…..گھٹنے جواب دے گئے تو منہ کے بل ریت پر لیٹ گیا اور اپنی ٹھوڑی اور پنجے ریت میں گاڑ کر پیٹ کے بل رینگنے لگا………اسی طرح رینگتے رینگتے اچانک ایک جائے نماز نما چٹائی کا ایک کونہ میرے ہاتھ آگیا…..وہ چٹائی کھجور کے درخت کے نیچے بچھی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر دو زانو تشریف فرما تھے………..حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب دیکھا اور عین اس وقت میری آنکھ کھل گئی….خواب کے بعد مجھے بے اختیار رونا آگیا….رونے کی آواز سن کر ماں جی بھی جاگ اٹھیں اور پیار سے بولیں:کیوں بچہ کوئی خواب دیکھا ہے؟میں نے کہا ہاں ایک عجیب خواب دیکھا…….ماں جی نے سونگھنے کے انداز میں چند لمبے لمبے سانس لیے اور بگڑ کر بولیں:کتنی بار کہا ہے کہ رات کو خوشبو دار تیل نہ لگایا کرو….اب ڈر نہ لگے تو کیا ہو؟لیکن تم مانتے ہی نہیں….میں نے جلدی جلدی انہیں اپنا خواب من و عن سنایا تو مجھے گلے لگا لیا اور بے اختیار رونے لگیں…ہم دونوں یونہی چپ چاپ بیٹھے روتے رہے….معلوم نہیں یہ خوشی کے آنسو تھے یا شکرانے کے آنسو تھے یا ظرف سے زیادہ نعمت عطا ہونے پر چھلک جانے کے آنسو تھے…….
خواب میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز کا کونہ اپنے ہاتھ سے چھو لینے کے بعد مجھے یہ فکر دامن گیر ہو گئی کہ اگر میں نے خود نماز کی پابندی اختیارنہ کی تو یہ ایک بیٹھے بٹھائے ملی” نعمت عظیم” کا کفران ہو گا…….
قدرت اللہ صاحب ایک اور بڑے ہی ایمان افروز خواب کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک بار میں نے کسی دور دراز علاقے کی مسجد میں جمعہ پڑھا…..مولوی صاحب نے اپنے خطبے میں ایک داستان کچھ ایسے انداز میں سنائی کہ تھوڑی رقت کرکے وہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی…..یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت و احترام کا تھا……باپ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں………مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کوئی درخواست یا فرمائش منظور نہ فرماتے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی منت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور سے منظور کروالائیں……….نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ جب بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوشدلی سے اسے منظور فرما لیتے تھے………اس کہانی کو قبول کرنے کے لیے میرا دل بے اختیار آمادہ ہوگیا……… نماز جمعہ کے بعد میں نے اسی مسجد میں کچھ نفل حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روح مبارک کو ایصال ثواب کی نیت سے پڑھے اور گڑ گڑ ا کر یہ دعا مانگی:یا اللہ میں نے نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا نہیں،لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تیرے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنت کے لیے اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کا جذبہ موجزن ہو گا،اسی لیے میں اللہ کریم سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روح طیبہ کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری درخواست اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کرکے منظور کروالیں……..درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں….سیدھے سادے مروجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا…..اگر سلسلہ اویسیہ واقعی افسانہ نہیں حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطا فرمائی جائے….. میں نے اس بات کا اپنے گھر یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا….چھ سات ہفتے گذر گئے اور میں واقعہ بھول گیا…….پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابی کا ایک عجیب خط موصول ہوا….وہ مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلی درجہ کی پابند صوم و صلوہ خاتون تھیں….انہوں نے لکھا:اگلی رات میں نے خوش قسمتی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خواب میں دیکھا….انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع اور شفقت سے باتیں کیں اور فرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتادو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی تھی ……..انہوں نے ازراہ نوازش اسے منظور فرما لیا ہے…… یہ خط پڑھتے ہی میں دیوانہ سا ہو گیا…….لگتا میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں…..پھر ایک خواب میں مجھے ایک نہایت دلنواز اور صاحب جمال بزرگ ملے،جو احرام پہنے عجیب سرور اور مستی کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے…..میرا دل بے اختیار ان کے قدموں میں” بچھ” گیا…..وہ بھی مسکراتے ہوئے میری جانب آئے اور مطاف سے باہر حطیم کی جانب ایک جگہ مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور بولے:میرا نام قطب الدین بختیار کاکی ہے ….تم اس راہ کے آدمی تو نہیں ہو لیکن جس دربار گہر بار سے تمہیں منظوری حاصل ہوئی ہے،اس کے سامنے ہم سب کا سر تسلیم خم ہے…..
سوچتا ہوں قیام پاکستان سے اب تک نا جانے کتنے ہی "نامی گرامی بیوروکریٹس” آئے اور مر کر "مٹی” ہو گئے……..کسی کو ان کے نام بھی یاد نہیں ہونگے……یہ بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہے کہ قدرت اللہ شہاب "امر” ہوگئے اور شکیل درانی بھی رہتی دنیا تک "زندہ "رہیں گے…..!!!