اہم خبریںپاکستان

پاکستان کی آبی صورتحال: ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کا تفصیلی تجزیہ

گزشتہ 12 برسوں میں پانی کی فراہمی میں کچھ معمولی بہتری تو آئی ہے، مگر اس کے باوجود نفاذ میں موجود خلا کی وجہ سے صورتحال اب بھی بدستور سنگین ہے۔

رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز

پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے ملک کی آبی صورتحال مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی تازہ ترین رپورٹ، جو ایشیائی واٹر ڈیولپمنٹ آؤٹ لک (اے ڈی ڈبلیو او) 2023 کے پانچویں ایڈیشن پر مبنی ہے، نے پاکستان کے آبی وسائل پر دباؤ کی شدت کو اجاگر کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو معیار اور مقدار دونوں لحاظ سے صاف پینے کے پانی کی سہولت میسر نہیں ہے، جس کے باعث پانی سے جڑی بیماریوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ 12 برسوں میں پانی کی فراہمی میں کچھ معمولی بہتری تو آئی ہے، مگر اس کے باوجود نفاذ میں موجود خلا کی وجہ سے صورتحال اب بھی بدستور سنگین ہے۔

1. آبادی میں تیزی سے اضافہ اور آبی وسائل پر دباؤ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلیوں اور خراب انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے آبی وسائل پر مسلسل دباؤ بڑھ رہا ہے۔ 1972 میں فی کس پانی کی دستیابی 3500 مکعب میٹر تھی جو 2020 تک کم ہو کر 1100 مکعب میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی آبی کمیابی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

2. زرعی شعبے میں آبی وسائل کا غیر موثر استعمال

پاکستان میں زرعی شعبہ زیرِ زمین پانی کا زیادہ استعمال کر رہا ہے، جس کی وجہ سے آبی وسائل کم ہو رہے ہیں اور آرسینک آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات جیسے بےترتیب مون سون بارشیں، برفانی پگھلاؤ اور سیلاب صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ گزشتہ 2022 کے سیلابوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا تھا اور اس کے اثرات ابھی تک محسوس ہو رہے ہیں۔

3. شہری آبی تحفظ میں محدود بہتری

رپورٹ کے مطابق، شہری علاقوں میں آبی تحفظ میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن یہ بہتری محدود ہے۔ بڑھتی ہوئی طلب، گندے پانی کا بغیر علاج اخراج، اور شہری سیلاب نے ڈھانچوں اور خدمات کی فراہمی کو شدید متاثر کیا ہے۔ اسی طرح، دیہی گھریلو پانی کے تحفظ پر مسلسل دباؤ برقرار ہے، کیونکہ ناقص سروس ماڈلز، کمزور نگرانی اور آلودگی کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا۔

4. پاکستان کی قومی پانی پالیسی اور نفاذ کے مسائل

رپورٹ میں پاکستان کی 2018 میں منظور شدہ قومی پانی پالیسی کی تعریف کی گئی ہے، تاہم اس کے نفاذ میں موجود خلا کی وجہ سے اس پالیسی کے اثرات محدود رہے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے سفارش کی ہے کہ نیشنل واٹر کونسل کے تحت ادارہ جاتی ہم آہنگی کو مضبوط کیا جائے تاکہ پانی کے تحفظ کے حوالے سے مؤثر فیصلے کیے جا سکیں۔

5. موسمیاتی خطرات اور پانی سے جڑی آفات

پاکستان میں موسمیاتی خطرات جیسے سیلاب، خشک سالی اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے (گلوف) کے واقعات نے آبی تحفظ کی صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 2022 کے سیلاب کے دوران تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے اور ابتدائی وارننگ سسٹمز میں کچھ بہتری تو آئی ہے، مگر لچکدار ڈھانچے کی کمی اور ناکافی سرمایہ کاری کی وجہ سے رسک مینجمنٹ کمزور ہے۔

6. آبی تحفظ کے لیے مالی وسائل کی کمی

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 سے 2023 تک واٹر، ایسنٹیشیل سروسز اور ہیلتھ کے شعبے میں فنڈنگ میں 152 فیصد اضافہ ہوا ہے، مگر پاکستان ابھی بھی اپنے پانی کے تحفظ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے درکار 12.3 ارب ڈالر سے پیچھے ہے۔ اگر ادارہ جاتی ڈھانچے مضبوط نہ ہوئے اور کمیونٹی کی شمولیت میں اضافہ نہ کیا گیا، تو دیہی علاقوں میں ہونے والی بہتری غیر مستحکم رہے گی۔

7. آبی تحفظ کے شعبے میں پیش رفت

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2013 سے 2025 تک پاکستان کا قومی آبی تحفظ اسکور 6.4 پوائنٹس بہتر ہوا ہے۔ پانی کے انتظامی نظم و نسق میں بھی کچھ بہتری آئی ہے، جس کا اندازہ 2017 میں 50 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 63 فیصد تک ہونے والی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔

8. مستقبل کے لیے سفارشات

اے ڈی بی نے پاکستان کے لیے چند اہم سفارشات پیش کی ہیں:

  • نیشنل واٹر کونسل کے تحت ادارہ جاتی ہم آہنگی کو مضبوط کیا جائے۔

  • پانی کے مؤثر استعمال کے لیے والومیٹرک پرائسنگ متعارف کرائی جائے۔

  • فیصلوں میں صنفی، سماجی اور علاقائی شمولیت کو شامل کیا جائے۔

  • ایک خود مختار واٹر کوالٹی اتھارٹی قائم کی جائے۔

  • ماحولیاتی قواعد و ضوابط اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ کو بہتر بنایا جائے۔

نتیجہ:

پاکستان کی آبی صورتحال ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلیوں اور انتظامی خامیوں کے باعث آبی وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں پانی کی کمیابی مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ ادارہ جاتی ہم آہنگی، مالی وسائل اور کمیونٹی کی شمولیت کے بغیر پاکستان کا آبی تحفظ بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔

ضرورت ہے کہ پاکستان کی حکومت فوری طور پر پانی کے تحفظ کے حوالے سے اپنے اقدامات کو مزید مؤثر بنائے اور ادارہ جاتی سطح پر ہم آہنگی کی کوششیں تیز کرے، تاکہ آنے والی نسلوں کو پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button