صحت

ڈاکٹر وردہ مشتاق کے قتل کے بعد خیبر پختونخوا میں ڈاکٹر برادری کا احتجاج، “یومِ سیاہ” منایا گیا

ایبٹ آباد سے لے کر پشاور تک، اور مانسہرہ سے سوات تک، خواتین ڈاکٹرز کی بڑی تعداد نے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھا اور ڈاکٹر وردہ کے قتل پر آبدیدہ ہو گئیں

ناصر خان خٹک.پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

خیبر پختونخوا میں معروف ڈاکٹر وردہ مشتاق کے لرزہ خیز قتل کے بعد ڈاکٹر برادری سراپا احتجاج بن گئی ہے۔ صوبے کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں میں آج او پی ڈیز اور الیکٹو سرجریز مکمل طور پر بند کر دی گئی ہیں، اور ڈاکٹروں نے اسے "یومِ سیاہ” قرار دے کر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ صوبے بھر میں ڈاکٹرز، لیڈی ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ہسپتالوں کے باہر جمع ہیں، جہاں غم و غصہ اور احتجاجی نعروں کے ساتھ ان کا جذباتی احتجاج جاری ہے۔

ڈاکٹر وردہ کا بہیمانہ قتل اور اس کے بعد کا ردعمل

ڈاکٹر وردہ مشتاق کا قتل صوبے بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا گیا ہے۔ ڈاکٹر وردہ کو ایک بدترین طریقے سے قتل کیا گیا، اور اس کے بعد پولیس کی کارکردگی اور تفتیشی عمل پر سخت سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر برادری نے اس سانحہ کو نہ صرف ایک ذاتی غم بلکہ ایک سنگین سماجی مسئلہ قرار دیا ہے۔

ایبٹ آباد سے لے کر پشاور تک، اور مانسہرہ سے سوات تک، خواتین ڈاکٹرز کی بڑی تعداد نے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھا اور ڈاکٹر وردہ کے قتل پر آبدیدہ ہو گئیں۔ متعدد ہسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز نے خاموش احتجاجی واک کی، جس میں انہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر درج تھا:

  • "ایک مسیحا بھی محفوظ نہیں تو ہم کس کی جان بچائیں؟”

  • "ڈاکٹر وردہ کو انصاف دو”

پولیس کی نااہلی اور تحقیقات میں غفلت پر سوالات

ڈاکٹر برادری کی تقاریر میں سب سے زیادہ تنقید پولیس کی نااہلی اور تفتیشی عمل میں غفلت پر کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر وردہ کے اغوا کے بعد اگر ابتدائی 48 گھنٹے ضائع نہ کیے جاتے تو شاید یہ سانحہ نہ ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تفتیش کو بروقت اور درست طریقے سے آگے بڑھایا جاتا تو ڈاکٹر وردہ کو بچایا جا سکتا تھا۔

پراونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا اعلان

پراونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ جب تک ڈاکٹر وردہ کے قاتلوں کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کر کے قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی، احتجاج جاری رہے گا۔ تنظیم نے یہ بھی واضح کیا کہ آج پورے صوبے میں یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے اور کل سے احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جا سکتا ہے۔

ایبٹ آباد سے لے کر پشاور تک، اور مانسہرہ سے سوات تک، خواتین ڈاکٹرز کی بڑی تعداد نے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھا اور ڈاکٹر وردہ کے قتل پر آبدیدہ ہو گئیں
ایبٹ آباد سے لے کر پشاور تک، اور مانسہرہ سے سوات تک، خواتین ڈاکٹرز کی بڑی تعداد نے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھا اور ڈاکٹر وردہ کے قتل پر آبدیدہ ہو گئیں

ڈاکٹر برادری کا کہنا ہے کہ یہ وقت ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈاکٹر وردہ کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور اس قتل کے پیچھے چھپے تمام کرداروں کو بے نقاب کریں۔

ہسپتالوں کی صورتحال اور ایمرجنسی سروسز

ڈاکٹروں کے احتجاجی اقدامات کے دوران، ایبٹ آباد، پشاور، مردان، ایبٹ آباد، سوات اور دیگر اضلاع کے ہسپتالوں میں معمول کی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ او پی ڈیز کی بندش کے باعث ہزاروں مریض مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، تاہم ایمرجنسی سروسز ابھی بھی کھلی ہیں اور اس کے ذریعے سنگین مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔

قانونی و سماجی تنظیموں کا احتجاج کی حمایت

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ایبٹ آباد، انسانی حقوق تنظیموں اور مختلف سول سوسائٹی گروپس نے بھی ڈاکٹر برادری کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وکلاء نے کہا ہے کہ "ڈاکٹر وردہ کا قتل ریاستی اداروں پر ایک سوالیہ نشان ہے، اور ملزمان کو انجام تک پہنچانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔”

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قتل کو نہ صرف ایک فرد کی ہلاکت بلکہ پوری معاشرتی ذمہ داری پر ایک دھچکا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کا تحفظ معاشرتی سطح پر انتہائی ضروری ہے، اور خواتین ڈاکٹرز کے لیے کام کا ماحول محفوظ بنایا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر برادری کا مطالبہ

ڈاکٹروں کی طرف سے جاری احتجاج میں واضح طور پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت اس واقعے کی تحقیقات میں مؤثر اقدامات کرے اور ڈاکٹر وردہ کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ اس کے علاوہ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے حکومت کو مزید پیشگی تدابیر اختیار کرنی ہوںگی۔

خلاصہ

ڈاکٹر وردہ مشتاق کے قتل کے بعد خیبر پختونخوا کے مختلف ہسپتالوں میں ڈاکٹر برادری نے سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا، جس میں پولیس کی نااہلی اور تفتیشی عمل پر سوالات اٹھائے گئے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جب تک قاتلوں کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کر کے سخت سزا نہیں دی جاتی، احتجاج جاری رہے گا۔ اس واقعے نے حکومت اور پولیس کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں، اور پورے صوبے میں اس قتل کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button