کالمزناصف اعوان

نیت ٹھیک ہو تو خزاں بھی بہار میں بدل جاتی ہے !……..ناصف اعوان

آمرانہ حکومتوں میں بھی ہوشربا بدعنوانی کے واقعات رونما ہوتے رہے جس کی وجہ سے ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس گیا وہ سلسلہ اب بھی جاری ہے

ہمارے ہاں جمہوریت کا راگ صبح شام الاپا جا تا ہے کہ جمہوریت ہونی چاہیے ہر کسی کو کہنے سننے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے ۔ ٹھیک ہے جمہوریت اچھی چیز ہے مگر اس کے مفہوم و معنی سے متعلق صرف پانچ فیصد لوگ جانتے ہوں گے اور ان میں بھی جمہوری جزبات کا فقدان موجود رہتا ہے کیونکہ وہ خود کو اعلی مخلوق تصور کرنے لگتے ہیں ۔ دوسروں کی رائے کا احترام ان پر لازم نہیں ہوتا ”روسو نے کہا تھا دنیا میں کہیں بھی حقیقی جمہوریت نہیں آسکتی“ ۔پاکستان ایسے ملک میں جہاں تعلیم کا حصول ہی ناممکن بنایا جارہا ہے کہ عام آدمی مہنگے تعلیمی اداروں کی فیسیں و دیگر اخراجات برداشت نہیں کر سکتا ۔سرکاری سکولوں کو مرحلہ وار نجی تحویل میں دیا جا رہا ہے جن میں ٹیچرز کم پیسوں کے عوض بچوں کو پڑھائیں گے لہذا ہم تو ابھی تعلیم کا اہداف ہی پورا نہیں کر سکے کروڑوں بچے درسگاہوں سے باہر ہیں اس کی وجہ ان کے والدین کی معاشی حالت کا کمزور ہوناہے۔
رہی بات یہ کہ ووٹ دے کر کسی امیدوار کو کامیاب کروانا اور اس عمل کو جمہوریت کہنا محض سادگی ہے ۔ ہمارے ووٹرز زیادہ تر دھڑے بند اور چوہدریوں سرداروں جاگیر داروں سرمایہ داروں اور نوابوں کے زیر اثر ہوتے ہیں اب تو بعض لوگ سودے بازی کرنے لگے ہیں لہذا اس صورت میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنا یا تقاضا کرنا عجیب لگتا ہے ؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی حکم ران نے عوام کی بہتری کے لئے کچھ کرنا ہو تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی یہاں جب بھی ”منتخب“ حکومتیں بے شک نام کی تھیں مگر وہ ہمیشہ الجھنوں میں ہی الجھی رہیں اپنے ساتھیوں کے ناز نخرے برداشت کرتی رہیں اس دوران بدعنوانی کے میگا سکینڈل بھی منظر عام پر آئے۔ آمرانہ حکومتوں میں بھی ہوشربا بدعنوانی کے واقعات رونما ہوتے رہے جس کی وجہ سے ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس گیا وہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔معاشی حالات ہیں کہ ٹھیک ہونے ہی میں نہیں آرہے غربت بیماری جہالت اور بے روزگاری اکاس بیل کی طرح پھیلتے چلے جا رہے ہیں ۔
در اصل خرابی ہماری نیت میں ہے نظام کوئی بھی ہو چل جاتا ہے اب بہت سے ملکوں میں یک جماعتی نظام حکومت ہے ان کی تعمیر وترقی کے حوالے سے دنیا تعریف کر رہی ہے چین تو اب سپر پاور بھی بن چکا ہے ایک ارب کی آبادی کو خط غربت کی لکیر سے اوپر لے آیا ہے ۔جب لوگوں کو ہر آسائش میسر ہو انصاف مل رہا ہو تعلیم اور صحت کی سہولتیں مفت حاصل ہوں اسے کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ چوراہے میں کھڑا ہو کر حکمرانوں پر تنقید کے تیر چلائے اسے ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ اس کی سرکار اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھ رہی ہوتی ہے تو پھر ایسی جمہوریت کا کیا کرنا جس میں اہل اقتدار تو دولت کے انبار لگا لیں ہر آسائش ان کی زندگی میں شامل ہو مگر ان کے عوام ہر شے کو ترسیں ۔ ”وِل ڈیورانٹ جمہوری نظام کے بارے میں کہتا ہے کہ اس کو چلانے والے لوگ غیر تربیت یافتہ اور اپنے پروگرام کے مطابق حکومتی امور سر انجام دیتے ہیں ان کا تعلق عوام کے ساتھ سطحی ہوتا ہے اور یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ وہ ان کی مرضی اور خواہشات کے تابع ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ ابتدا میں ہر شخص اپنا طبیب خود تھا اور ہر گھر میں اپنی ضرورت کی دوائیں موجود ہوتی تھیں لیکن جوں جوں طبی معلومات میں اصافہ ہوتا گیا ایک عام انسان کے لئے یہ ناممکن ہو گیا کہ وہ تمام ادویہ کی فہرست کو ذہن نشیں کر لے لہذا لوگوں کا ایک گروہ اٹھا اور انہوں نے اپنا وقت طب کے مطالعہ پر صرف کیا یوں ماہر طبیب وجود میں آئے ۔لوگوں کو عطائیوں سے محفوظ کرنے کے لئے طب کے ماہرین کو اعلیٰ خطاب اور سندیں دی گئیں ۔اب حالات یہ ہیں کہ جب تک کسی نے یہ سند حاصل نہ کی ہو قانون اسے طبابت کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ہمارا معالج اپنی زندگی کا قیمتی حصہ طب کے مطالعہ پر قربان کر چکا ہو گا لیکن جو لوگ ہمارے اجتماعی امراض کا علاج کرتے ہیں اور کروڑوں جانوں کو جنگ اور امن میں خطرہ میں ڈالتے ہیں اور جن کے اختیار میں ہماری جائداد اور ہماری آزادی ہے انہیں کسی مہارت یا مطالعہ کی ضرورت نہیں ۔یہ کافی ہے کہ وہ صدر کے دوست ہوں جماعت کے وفادار ہوں خوبرو اور خوش اخلاق ہوں گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوں خاموشی سے احکام کی بجا آوری کرتے ہوں اور موسمی پیمانہ کی طرح خوش آئند وعدوں سے معمور ہوں۔ چاہے وہ کچھ بھی ہوں اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہوتی “
جب ایسے لوگ ہم پر مسلط ہوں تو وہ عوامیت سے خالی ہوتے ہیں انہیں وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جو وہ اپنا پروگرام ترتیب دے چکے ہوتے ہیں یہی وجہ کہ اب تک جتنے بھی حکمران آئے وہ عوام سے کیے گئے وعدوں کا پاس نہیں کر سکے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی اور ہے کہ ہماری ہر حکومت عالمی مالیاتی اداروں کی مرہون ہوتی ہے کیونکہ ملکی معیشت ودیگر انتظامی امور سر انجام دینے کے لئے انہیں بھاری رقوم درکار ہوتی ہیں ہماری حالت شروع دن سے کمزور رہی ہے یعنی ہمارا انحصار بیرونی قرضوں پر رہا ہے ۔ایسے میں منتخب حکومت جو کبھی بھی صحیح معنوں میں شفاف نہیں دیکھی گئی انتخابات کے بعد دھاندلی کا شور اٹھتا رہا ہے عدالتوں میں رٹیں دائر ہوتیں یہاں تک حکومت کا عرصہ اقتدار اختتام پزیر ہو جاتا اس دوران اور کھینچا تانی میں ملک کہاں کھڑا ہے سب کے سامنے ہے۔یہاں ہم یہ عرض کردیں کہ جمہوریت اگر حقیقی ہو تو وہ انسانی اقدار کی پاسداری کرتی ہے ۔انسانی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے ان میں نکھار پیدا کرتی ہے مگر اس کے لئے تعلیم مفت ہو معیشت مضبوط ہو اور انصاف سستا اور آسان ہو ۔
بہت سے لوگ یورپ و مغرب کی مثال دیتے ہیں وہاں تو صدیوں بعد کچھ بنیادی انسانی حقوق لوگوں کو ملے مگر ہم اس جمہوریت کو حقیقی تب بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہاں طبقات موجود ہیں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہے جو اس کے ذریعے حکومتیں بھی بناتے ہیں اور نظام بھی چلاتے ہیں جس میں لوگ فٹ پاتھوں پر بھی سوتے ہیں اور خط غربت کے نیچے بھی ایک بھاری تعداد زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر کوئی نظام حیات عوامی بھلائی کے لئے نیک نیتی سے کام کرتا ہے تو اسے برا نہیں کہا جا سکتا لہذا ہمیں کسی نظام کی نہیں چند مخلص محب الوطنوں کی ضرورت ہے جو وطن عزیز کی معیشت کو مضبوط بنا سکیں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سماج کی شکست و ریخت کے عمل کو روک سکیں !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button