اہم خبریںپاکستان

فیض حمید کی سزا کے خلاف اپیل دائر کریں گے،فوجی عدالت کا فیصلہ ’غیر قانونی و غیر آئینی ہے،وکیل علی اشفاق کا مؤقف

"یہ فیصلہ قانون کی نظر میں کمزور اور آئین سے متصادم ہے۔ دفاعی ٹیم کو کارروائی سے مکمل طور پر دور رکھا گیا۔ ہم اس فیصلے کے خلاف چند روز میں اپیل دائر کر رہے ہیں۔"

وائس آف جرمنی اردو نیوز, خبر رساں ادارے کے ساتھ

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے وکیل علی اشفاق نے اعلان کیا ہے کہ ان کے موکل کو فوجی عدالت کی جانب سے سنائی گئی چودہ سال قید بامشقت کی سزا کے خلاف جلد اپیل دائر کی جائے گی۔ انہوں نے فوجی عدالت کے فیصلے کو ’’غیر قانونی، غیر آئینی اور جعلی ٹرائل‘‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فیصلے کے وقت نہ تو دفاعی ٹیم کو بلایا گیا اور نہ ہی فیض حمید کی قانونی نمائندگی موجود تھی۔

"دفاع کے بغیر سزا سنائی گئی” — وکیل علی اشفاق کا مؤقف

وکیل علی اشفاق نے عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ ان کے موکل نے ابتدا ہی سے الزامات اور کارروائی کو "جانب دارانہ اور غیر شفاف” قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا:
"یہ فیصلہ قانون کی نظر میں کمزور اور آئین سے متصادم ہے۔ دفاعی ٹیم کو کارروائی سے مکمل طور پر دور رکھا گیا۔ ہم اس فیصلے کے خلاف چند روز میں اپیل دائر کر رہے ہیں۔”

فیض حمید پر الزامات اور پس منظر

فوجی عدالت کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر اختیارات کے ناجائز استعمال، سیاسی معاملات میں مداخلت، اور شہریوں کو مبینہ طور پر نقصان پہنچانے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔
ان کی گرفتاری 2024 میں اُس وقت عمل میں آئی تھی جب ان پر الزام لگا کہ انہوں نے ایک معروف رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کے کاروبار پر چھاپہ مارنے کا حکم دے کر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔

فیض حمید سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت (2018–2021) میں آئی ایس آئی کے سربراہ رہے اور انہیں اس دور کا سب سے بااثر عسکری افسر تصور کیا جاتا تھا۔

فوج کا مؤقف

فوج نے جمعرات کے روز ایک مختصر بیان میں تصدیق کی کہ فیض حمید کو "متعدد سنگین الزامات” میں سزا سنائی گئی ہے جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا بھی شامل ہے۔
فوجی حکام کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی داخلی احتساب کے نظام کے مطابق کی گئی۔

پی ٹی آئی کا ردعمل: "سیاسی انتقام کا تسلسل”

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان زلفی بخاری نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ حیران کن نہیں ہے۔

ان کے مطابق:
"یہ کسی کے لیے حیران کن نہیں ہو گا اگر فیض حمید کو صرف عمران خان کے خلاف مزید سنگین الزامات تیار کرنے کے لیے سزا دی جا رہی ہو۔”

پی ٹی آئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیض حمید کے معاملے سمیت حالیہ قانونی فیصلوں کا مقصد پارٹی کے بانی عمران خان پر مزید دباؤ بڑھانا ہے۔

سیاسی ماہرین کی رائے

معروف سیاسی تجزیہ کار عارفہ نور نے اس اقدام کو وسیع سیاسی تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا:
"آج کل ہر چیز عمران خان کے لیے ایک پیغام ہے، اس فیصلے سمیت۔ واضح طور پر طاقت کے مراکز میں کچھ تبدیل ہو رہا ہے اور اس کے سیاسی اثرات سامنے آ رہے ہیں۔”

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام پاکستان کے سیاسی اور عسکری تعلقات میں جاری تناؤ کو مزید نمایاں کرتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملکی سیاست پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔

عمران خان کا پس منظر اور موجودہ صورتحال

عمران خان 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر آئے لیکن 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹا دیے گئے۔ وہ اس وقت بدعنوانی اور دیگر مقدمات کے باعث جیل میں ہیں۔

عمران خان کا الزام ہے کہ فوجی قیادت نے ان کے خلاف سازش کرکے ان کی حکومت کو ختم کیا اور بعد ازاں ان کی جماعت کو انتخابی میدان میں کمزور کرنے کی کوشش کی۔

آگے کیا ہوگا؟

فیض حمید کی سزا کے خلاف اپیل چند دنوں میں دائر کیے جانے کا امکان ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اپیل کا فیصلہ نہ صرف ان کے کیس کا مستقبل طے کرے گا بلکہ ملکی سیاست اور عسکری اداروں کے آپس کے تعلقات پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ آنے والے دنوں میں قومی سیاسی بیانیے کا اہم حصہ بننے جا رہا ہے، جبکہ حکومت، فوج اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button