
جواد احمد – جرمنی،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
جرمنی نے پاکستان میں منتظر 640 افغان شہریوں کے لیے پہلے سے جاری کردہ پناہ کی منظوری واپس لیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اب انہیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جرمن حکومت کا یہ فیصلہ نئی اور سخت تر مہاجرت پالیسیوں کا حصہ ہے، جن کے تحت ری سیٹلمنٹ پروگراموں کو ’’جہاں تک ممکن ہو‘‘ محدود یا ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
"منتقلی میں سیاسی دلچسپی نہیں رہی” — جرمن وزارت داخلہ
جرمن وزارتِ داخلہ کی ترجمان سونیا کوک کے مطابق ان افغان افراد کو آئندہ چند روز میں باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا جائے گا کہ ان کی منتقلی سے متعلق اب جرمن حکومت کی کوئی سیاسی دلچسپی باقی نہیں رہی۔
یہ وہی افغان ہیں جنہیں طالبان حکومت کے ممکنہ ظلم، خوف اور انتقامی کارروائیوں سے بچانے کے لیے جرمنی نے انسانی بنیادوں پر تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
مقامی اسٹاف پروگرام بھی متاثر — پہلی بار جرمنی کا بڑا قدم
اس فیصلے سے نہ صرف عام افغان شہری بلکہ وہ افغان بھی متاثر ہوئے ہیں جو سابقہ حکومت کے دور میں جرمن وزارتوں، اداروں اور منصوبوں کے لیے مقامی ملازمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
امدادی تنظیم کابل ایئرلفٹ (Kabul Airlift) کے مطابق، کم از کم 130 افغانوں کو ای میل موصول ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ انہیں پہلے جرمنی داخلے کی منظوری دی جا چکی تھی، مگر اب وہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
جرمن وزیر داخلہ لاعلم، مگر ’قانونی منظوریوں کے احترام‘ کا وعدہ
جرمنی کے وزیرِ داخلہ الیگزینڈر ڈوبرنٹ نے جرمن نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا کہ وہ اس معاملے سے ’’لاعلم‘‘ تھے، تاہم انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ جہاں قانونی طور پر پناہ کی منظوری دی جا چکی ہے، حکومت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تمام افغان درخواست گزاروں کو سخت سکیورٹی کلیئرنس سے گزرنا ضروری ہو گا۔
2021 سے جرمنی 19,000 افغانوں کو پناہ دے چکا ہے
طالبان کے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول کے بعد سے اب تک جرمنی:
4,000 افغان مقامی عملے کے ارکان
اور ان کے 15,000 فیملی ممبران
کو پناہ فراہم کر چکا ہے۔
تاہم پاکستان میں رہنے والے باقی افغان، جن کی بڑی تعداد جرمن منظوری کی منتظر ہے، اب شدید غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں افغان شہریوں کی بے چینی میں اضافہ
پاکستانی حکام کی جانب سے بارہا یہ کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جائے گا، اور کچھ رپورٹس کے مطابق انہیں طالبان حکومت کے حوالے کرنے کی دھمکیوں نے ان کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
جرمن منظوری کی منسوخی نے ان افغان خاندانوں کو شدید ذہنی، سماجی اور حفاظتی دباؤ سے دوچار کر دیا ہے، جو گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان میں منتقلی کے انتظار میں رہائش اور سلامتی کے مسائل برداشت کر رہے ہیں۔
ماہرین کا رد عمل
پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے جرمنی کے اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف انسانی بنیادوں کے منافی ہے بلکہ ایسے افغانوں کو شدید خطرات سے دوچار کرتا ہے جنہوں نے ماضی میں بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔
انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ پالیسی برقرار رہی تو ہزاروں افغان مستقبل میں پناہ کے کسی بھی امکان سے محروم ہو جائیں گے۔



