پاکستان

پانی کا بطور ہتھیار استعمال ‘قابل قبول’ نہیں، شیری رحمان

"پانی کو ہتھیار بنانا نہ تو سمجھداری کی بات ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول" ہے

ٹوئٹر اور مقامی میڈیا کے ساتھ

بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مودی حکومت نے دریائے چناب پر ایک اور ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی منظوری دے دی ہے۔ سینیٹر شیری رحمان اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ‘دو طرفہ تعلقات میں تناؤ کو مزید ہوا’ دے گا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں، پیپلز پارٹی کی رہنما نے لکھا، "سندھ آبی معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے، بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر دلہستی اسٹیج دوم کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی منظوری دے دی ہے۔”

انہوں نے مزید لکھا، "انڈس آبی معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی)، جسے یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جا سکتا اور جس کی حال ہی میں اقوام متحدہ کے نمائندوں نے بھی تصدیق کی ہے، کے تحت پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانیوں پر کنٹرول حاصل ہے، جب کہ راوی، بیاس اور ستلج دریا بھارت کے کنٹرول میں آتے ہیں۔”

انہوں نے بھارتی اقدام پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، "معاہدے کی غیر قانونی معطلی کے بعد، بھارت نے سندھ بیسن میں کئی متنازعہ ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس کی تعمیر تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان منصوبوں کے پہلے پراجیکٹ میں ساولکوٹ، رتلے، برسر، پاکل دول، کوار، کیرو اور کیرتھائی شامل ہیں، جبکہ دوسرے اسٹیج میں دلہستی کو اسی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔”

انہوں نے کہا، "ایسے خطے کو جسے آب و ہوا کی تبدیلی اور شدید قسم کے ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے، وہاں پانی کو ہتھیار بنانا نہ تو سمجھداری ہے اور نہ ہی یہ  قابل قبول ہے۔ یہ ان دو طرفہ تعلقات کے تناؤ کو مزید ہوا دے گا، جو پہلے ہی سے بداعتمادی کی لپیٹ میں ہیں۔”

بھارت نے چناب پر نئے منصوبوں کی منظوری دی

گزشتہ چند روز کے دوران بھارت کے بیشتر میڈیا ادارے مسلسل ایسی خبریں شائع کرتے رہے ہیں کہ بھارتی وزارت ماحولیات کے ایک پینل نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں دریائے چناب پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی منظوری دے دی ہے۔

درمیائے چناب پر بھارتی ریل کا پل
بھارت نے سندھ طاس آبی معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے ساتھ ہی دریائے چناب پر کئی ہائیڈل پروجیکٹ کا اعلان کر رکھا ہےتصویر: Waseem Andrabi/Hindustan Times/Sipa USA/picture alliance

اس حوالے سے رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ 260 میگاواٹ کا یہ نیا منصوبہ اسی دریا پر 1,856 میگاواٹ کے ساولکوٹ ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے کی منظوری کے دو ماہ بعد آیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں منصوبوں کا مقصد "چناب کی صلاحیت کو بروئے کار لانا” ہے۔

اپریل میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے اور پھر نئی دہلی نے بغیر کسی ثبوت کے اس کا الزام اسلام آباد پر لگایا۔

پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے پانی کے حصے کو معطل کرنے کی کسی بھی کوشش کو "جنگ کا عمل” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

پھر جون میں بین الاقوامی تنازعات کے لیے فریم ورک فراہم کرنے والی ثالثی کی مستقل عدالت (پی سی اے) نے بھی اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو التوا میں نہیں رکھ سکتا۔

چناب کے پانی پر بھارت سے وضاحت طلب

اس سے قبل 19 دسمبر کو پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی چناب کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ ایک ایسی صورتحال کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں، جس سے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم نے اس سال اپریل میں بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کا مشاہدہ کیا تھا۔ لیکن اب جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھارت کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیاں ہیں، جو سندھ طاس معاہدے پر حملہ کرتی ہیں اور یہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی قانون کے تقدس کو بھی پامال کرتا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، "ہم نے رواں برس دو بار دریائے چناب کے بہاؤ میں غیر معمولی اور اچانک تبدیلیاں دیکھی ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ یہ تبدیلی 30 اپریل سے 21 مئی اور سات دسمبر سے 15 دسمبر کے درمیان دیکھی گئی ہیں۔

اسحاق ڈار نے مزید کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے "پانی کے بھاؤ میں ہیرا پھیری نے ہمارے انڈس واٹر کمشنر کو اپنے بھارتی ہم منصب کو خط لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ اور اس خط میں انڈس واٹر ٹریٹی میں فراہم کردہ اصول و ضوابط کے تحت اس معاملے پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی حالیہ کارروائی "واضح طور پر پانی کو ہتھیار بنانے کی مثال پیش کرتی ہے، جس کی طرف پاکستان مسلسل عالمی برادری کی توجہ مبذول کراتا رہا ہے۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button