عورت مارچ: خواتین پر تشدد کے بعد پریس کلب سے ڈی چوک تک ریلی
اسلام آباد میں ہونے والا مارچ ابتدا میں اس وقت بد نظمی کا شکار ہو گیا جب اس کے شرکاء نے نیشنل پریس کلب سے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ڈی چوک کی طرف جانے کی کوشش کی تاہم انتظامیہ نے کنٹینرز لگا کر ان کا رستہ بند کر دیا کیونکہ وہاں اسی وقت جماعت اسلامی کا حیا مارچ ہو رہا تھا۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بدھ کو عالمی یوم خواتین پر جوش طریقے سے منایا گیا اور تقریبا تمام بڑے شہروں میں اس دن کی مماثلت سے خصوصی تقاریب منعقد کی گئیں۔
دن کے سب سے بڑے اجتماعات اسلام آباد اور لاہور میں ہوئے جہاں خواتین نے حسب روایت عورت مارچ کا انعقاد کیا۔ اسلام آباد میں ہونے والا مارچ ابتدا میں اس وقت بد نظمی کا شکار ہو گیا جب اس کے شرکاء نے نیشنل پریس کلب سے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے ڈی چوک کی طرف جانے کی کوشش کی تاہم انتظامیہ نے کنٹینرز لگا کر ان کا رستہ بند کر دیا کیونکہ وہاں اسی وقت جماعت اسلامی کا حیا مارچ ہو رہا تھا۔
عورت مارچ کے شرکا نے روکے جانے کے بعد پریس کلب کے سامنے تقاریر شروع کر دیں۔
اس موقع پر مظاہرین اور میڈیا کے اراکین میں تلخ کلامی اور ہاتھا پائی بھی ہوئی جس پر قابو پانے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ مارچ میں تشدد اس وقت شروع ہوا جب اس میں شریک خواجہ سراؤں نے میڈیا کے قریب آنے کا شکوہ کیا اور پھر ایک خاتون صحافی پر حملہ کیا۔
پولیس کی جانب سے مداخلت کے بعد مارچ دوبارہ پُرامن ہو گیا اور ڈی چوک میں جماعت اسلامی کی ریلی ختم ہونے کے بعد اس کے شرکا کو وہاں جانے کی اجازت دے دی گئی جہاں پر تقاریر کے بعد یہ اختتام پذیر ہو گیا۔
قبل ازیں پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان بھی اظہار یکجہتی کے لیے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاجی مارچ میں شامل ہوئیں۔
اس موقع پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے پولیس تشدد کی مذمت کی اور کہا کہ وہ اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کریں گی۔
بعد ازاں اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کیے ایک بیان میں واقعے پر معذرت کی گئی اور تشدد میں ملوث تین اہلکاروں کو معطل کیا گیا۔
لاہور میں عورت مارچ شیڈول کے مطابق لاہور پریس کلب چوک سے پنجاب اسمبلی تک منعقد ہوا۔ پولیس کی بھاری نفری نے مارچ کے شرکاء کو سیکیورٹی فراہم کی۔
مارچ کے شرکا نے اس مرتبہ متنازع پلے کارڈز نہیں اٹھائے ہوئے تھے البتہ عورتوں کے حقوق اور ماحول کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ راوی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے کسانوں کی زمینوں سے قبضے چھڑوانے جیسے مطالبات درج تھے۔
یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے لاہور میں عورت مارچ کی مشروط اجازت دی تھی جس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ متنازع پلے کارڈ مارچ میں نہیں لائے جائیں گے جس پر بظاہر عمل کیا گیا۔
اس سے پہلے لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے عورت مارچ کو سیکیورٹی کی صورت حال کے باعث اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
مارچ سہ پہر تین بجے شملہ پہاڑی (پریس کلب) سے شروع ہوا اور اپنے مقررہ روٹ سے ہوتا ہوا پُرامن طور پر اختتام پذیر ہوا۔ پولیس نے روٹ کے آغاز اور اختتام پر کنٹینرز لگا کر سڑک بند کر رکھی تھی۔