شام، ناکام اور کامیاب بغاوتوں کا پس منظر (قسط:9)…..حیدر جاوید سید
ہمارے ہاں بھی اس وقت آج کی طرح دیوبندی و سلفی مسلک کے حلقوں کے علاوہ جماعت اسلامی بھی شامی بغاوت کے کرداروں کی حامی تھی یہ حمایت اس کے باوجود ہوئی کہ جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی مرحوم غیرریاستی جہاد کے مخالف تھے
یہ سال 2011ء کے ابتدائی مہینوں کی بات ہے جب ترکی میں رجب طیب اردگان کی حکومت کی سرپرستی میں شام کی بشارالاسد مخالف اپوزیشن کا اجلاس انقرہ میں منعقد ہوا۔ اس کانفرنس میں کویت، سعودی عرب، قطر اور امریکہ بطور مبصر شریک ہوئے۔
اس کانفرنس کے انعقاد کے بعد بشارالاسد حکومت کی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا کہ انقرہ میں ہونے والی شام مخالف کانفرنس میں اسرائیل ، شام کی سیاسی اپوزیشن کے ساتھ ان مسلح تنظیموں نے بھی شرکت کی جو شام میں فرقہ وارانہ بنیاد پر خانہ جنگی کا دروازہ کھولنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
تب ان کا اشارہ غالباً النصرہ فرنٹ کی جانب تھا جس نے اگلے برسوں میں اپنا نام ’’جیش الشام‘‘ رکھ لیا تھا۔ انقرہ کانفرنس میں النصرہ فرنٹ اور جہاد اسلامی شام کی شرکت اوراسرائیل کی بطور مبصرشرکت کے الزام کی نہ تو میزبان ترکی نے تردید کی نہ ہی امریکہ یا دوسرے کسی مبصر ملک نے۔
بشارالاسد سے پاک شام کا نعرہ لگانے والوں کو بیرونی اعانت حاصل رہی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی اس وقت آج کی طرح دیوبندی و سلفی مسلک کے حلقوں کے علاوہ جماعت اسلامی بھی شامی بغاوت کے کرداروں کی حامی تھی یہ حمایت اس کے باوجود ہوئی کہ جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی مرحوم غیرریاستی جہاد کے مخالف تھے۔
16 دسمبر 2016ء کولکھے گئے کالم میں ہم نے پڑھنے والوں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ کیا بشار مخالف مسلح اپوزیشن کے حامی عرب ممالک، مصر، اردن ، کویت، سعودی عرب اور قطر میں خالص یا پابند جمہوریت میں سے کسی ایک کا وجود ہے؟
اسی کالم میں دو مزید سوال بھی پڑھنے والوں کے سامنے رکھے اولاً یہ کہ شام میں جمہوریت کے طلب گارسعودی عرب نے مصر میں صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے کمانڈر انچیف السیسی کی حکومت کی حمایت کیوں کی اور مصر کی فوجی حکومت جو اخوان کی جگہ اقتدار میں آئی تھی کے لئے سعودی عرب نے 12 ارب ڈالر کی امدادی رقم کیوں دی کیا یہ رقم اخوان کی نسل کشی کے لئے دی گئی تھی؟
دوسرا سوال یمن کے حوالے سے تھا جہاں علی عبداللہ الصالح کی جگہ منصور ہادی کی کٹھ پتلی حکومت کو مسلط کرنے کا منصوبہ سعودی عرب میں تشکیل ہی نہیں پایا تھا بلکہ اس پر عمل بھی سعودی عرب کی نگرانی میں ہوا۔
2011ء کے ابتدائی مہینوں کے دوران انقرہ میں بشار مخالف جس اپوزیشن کا اجلاس ہوا اس کی کامیابی میں معاونت کے لئے کانفرنس میں ابتدائی طور پر 8 ارب ڈالر کی خطیر رقم جمع ہوئی۔ یہ رقم میزبان ملک ترکی ( اب ترکیہ ) کی نگرانی میں اپوزیشن کے سیاسی اور مسلح گروہوں میں تقسیم کرنے کا اصولی فیصلہ ہوا۔
اس رقم کے علاوہ قطر نے سال 2011ء سے 2015ء تک النصرہ فرنٹ (جیش الشام) کے لئے ا پنے سالانہ قومی بجٹ میں 2 ارب ڈالر کی رقم ہر سال رکھی
یعنی صرف قطر نے شامی بغاوت کے ایک کردار النصرہ فرنٹ کو لگ بھگ 10 ارب ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی یہ رقم انقرہ کانفرنس میں قائم کردہ فنڈ میں قطر کے حصے کے علاوہ تھی۔
2011ء سے 2016ء کے درمیان شام میں بشارالاسد کے خلاف جاری بغاوت کے دنوں میں ایک مرحلہ پر ہم نے اپنے کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ’’بشارالاسد کی آمریت اور ریاستی جبروتشدد سے انکار ممکن نہیں لیکن شام کی بغاوت صرف احیائے جمہوریت یا اسلامی انقلاب کے لئے ہرگز نہیں اس کے پس پردہ دیگر معاملات اپنی جگہ ہیں مگر ایک وجہ ان برسوں میں شام اور عراق کی مذہبی سیاحت میں اضافہ بھی ہے
حالانکہ شام اور عراق میں مذہبی سیاحت میں اضافے سے سعودی عرب کی مذہبی سیاحت حج و عمرے میں کمی ہرگز نہیں ہوئی تھی
کیونکہ شام اور عراق میں زیارات کے لئے جانے والے 90 فیصد اہل تشیع ہوتے ہیں 10 فیصد صوفی سنی، اسماعیلی اور بوہرہ شیعہ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2015ء میں عراق زیارات کے لئے جانے والے غیرملکی زائرین کی تعداد 27 لاکھ تھی 2016ء میں یہ تعداد 35 لاکھ ہوگئی اسی طرح چہلم امام حسینؑ کے موقع پر دمشق میں امام علیؑ کی صاحبزادی سیدہ بی بی زینبؑ کے مزار پر حاضری کے لئے شام جانے والوں کی تعداد 18 لاکھ تھی جبکہ 2016ء میں یہ تعداد 30 لاکھ ہوگئی۔
اسی طرح سال 2015ء میں حجاج کرام کی مجموعی تعداد (غیرملکی) 25 لاکھ تھی اسی برس 2015ء میں محرم الحرام کے موقع پر عراق میں 20 لاکھ غیرملکی زائرین پہنچے۔
ان اعدادوشمار کے ساتھی یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس مذہبی سیاحت کے زرمبادلہ میں اپنے حصے میں کمی نہ ہونے کے با وجود عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب، شام اور عراق کے کاروباری حلقوں کے درمیان ایک چپقلش بہرطور موجود ہے لیکن شام میں بغاوت اور انہی برسوں میں القاعدہ اور دولت اسلامیہ عراق والشام کا عراق و شام میں فعال ہونے کے پیچھے وجوہات مختلف ہیں اور سب سے بڑی وجہ اسرائیل کے لئے خطے سے ہر وہ کانٹا صاف کرنا ہے جو گریٹر اسرائیل یا یوں کہہ لیجئے اس کی علاقائی تھانیداری کے خلاف ہو۔
ہم نے تب بھی ان سطور میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ اسرائیلی تھانیداری کا راستہ ہموار کرنے کی امریکی پالیسی کی کامیابی کے لئے عرب ریاستیں دست و بازو کیوں بنی ہوئی ہیں؟
شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے اور’’ہئیت التحریر شام‘‘ کی بغاوت کی کامیابی کو ہمارے ہاں جو لوگ شہزادوں کا انقلاب اسلامی قرار دے رہے ہیں وہ بی ایل اے، بی ایل ایف، کالعدم ٹی ٹی پی اور کالعدم لشکر جھنگوی کی عسکریت پسندی کو کس منہ سے ریاست جمہوریت اور انسانیت پرحملہ قرار دیتے ہیں؟
ہمارے لائق احترام دوست اور لاہور پریس کلب کے سابق صدر سید ثقلین امام نے شام کی حالیہ بغاوت کی کامیابی کے بعد ’’ترقی پسند عرب قوم پرستی کا خاتمہ‘‘ کے عنوان سے لکھی اپنی تحریر میں سیر حاصل بحث کی ان کی تحریر کا ضمناً ذکر کرنے کی بجائے اگلی قسط میں تحریر کوکالم کے حصے کی صورت میں ان سطور میں شامل کرتے ہیں۔
سید ثقلین امام ان دنوں بی بی سی لندن سے منسلک ہیں۔ سیدی ثقلین امام کے علاوہ بھی چند دوستوں کے تجزئیات نہایت عمدہ اور حوالہ جات کے اعتبار سے خاصی اہمیت کے حامل ہیں آئندہ اقساط میں ان مختلف تحریروں اور بعض ایرانی صحافیوں کے تجزیوں سے اقتباسات بھی پڑھنے والوں کی خدمت میں استفادے کے لئے پیش کرتاہوں۔
فی الوقت یہ کہ شام کی حالیہ بغاوت کی کامیابی اور بشارالاسد حکومت کے خاتمے پر مسلسل بات کرنے والوں (ان میں یہ تحریر نویس بھی شامل ہے) کو بشارالاسد اور ان کے مرحوم والد حافظ الاسد کے ادوار میں ہوئی ترقی شخصی آمریت، مخالفین کے خلاف ریاستی طاقت کے بے رحمانہ استعمال سمیت اس امر پربات ضرور کرنی چاہیے کہ ترقی اور لبرل سیکولر خیالات کے باوجود یہ باپ بیٹا شام میں موجود فرقہ وارانہ اختلافات اور قبائلی تعصبات کو ختم کرنے میں ناکام کیوں رہے۔
وہ کیا وجہ بنی کہ فرقہ وارانہ اختلافات کی کوکھ سے مسلح ردعمل نے النصرہ فرنٹ (جیش الشام) جہاد اسلامی نامی تنظیموں کی صورت میں جنم لیا۔ القاعدہ اور دولت اسلامیہ عراق والشام کو شام میں اپنی سرگرمیوں کے لئے زرخیز زمین کیوں مل گئی؟
کیا یہ حالیہ بغاوت کی کامیابی، پچھلی دو ناکام بغاوتوں یا پھرمرحوم حافظ الاسد کے دور میں ہونے والی ناکام بغاوتوں کےسلسلے نے صرف 18 فیصد علویوں کی بالادستی سے جنم لیا؟
ہماری دانست میں یہ اہم ترین سوالات ہیں ان پربات ہونی چاہیے۔
حافظ الاسد اوران کے صاحبزادے بشارالاسد مجموعی طور پر 54 برس شام میں برسراقتدار رہے۔ نصف صدی سے چار برس اوپر کا یہ اقتدار محض 10 سے 12 دنوں میں ملیامیٹ کیوں ہوگیا۔
نیز یہ کہ کیا اس تبدیل ہوئے شامی منظرنامے کی کوکھ سے نیا مشرق وسطیٰ جنم لے گا جس کی قیادت اسرائیل کے پاس ہوگی اور عرب ریاستیں اطاعت گزار شریف بچوں کی طرح تل ابیب میں بجائی جانے والی ڈھولک کی تھاپ پر رقص کرتی رہیں گی۔
یا یہ کہ کیا ’’ہئیت التحریر الشام‘‘ کے ایجنڈے میں پچھلی صدی کے اوائل والے شام کی بحالی ہے؟
اس سوال کا فوی جواب یہ ہے کہ یہ کسی بھی طور ممکن نہیں کیونکہ ہئیت التحریر الشام کولانے والے اپنی سرمایہ کاری سود سمیت وصول کریں گے۔ اسرائیل نے تو وصولی کا آغاز کردیا ہے۔