
ناموس رسالتﷺکے تقاضے…….پیر مشتاق رضوی
”بیشک جولوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے“
حکومت پاکستان نے 15مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنےکے عالمی دن کو بطور یوم تحفظ ناموس رسالت ﷺ منانےکا فیصلہ ایمان افروز اور خوش آئند بھی ہے
ناموس رسالت ﷺ کا مفہوم اور معنی:
مفتی عبدالقیوم ہزاروی کے مطابق ناموس سے مراد ’’ آبرو، عزت، شہرت، عظمت اور شان‘‘ ہے۔ناموسِ رسالت سے مراد ’’رسول کی آبرو، عزت، شہرت، عظمت اور شان‘‘ ہے۔ اور تحفظِ ناموس ِ رسالت سے مراد ہے کہ کسی بھی رسولﷺ کی آبرو، شہرت ، عزت، عظمت یا شان کا لحاظ کرنا، ہر قسم کی عیب جوئی اور ایسے کلام سے پرہیز کرنا جس میں بے ادبی ہو۔ ان تمام امور کا لحاظ رکھنا فرض ہے اور مخالفت کرنا کفر ہے۔
حضور نبی کریم (ﷺ) کی ظاہری حیات مبارکہ اور وصال مبارک کے بعد تمام احوال میں آپ(ﷺ) کی تعظیم و توقیر بجا لانا امت پر واجب ہے کیونکہ دلوں میں حضور نبئِ رحمت (ﷺ) کی جتنی تعظیم بڑھے گی اسی قدر ایمان بڑھے گا۔
قرآن مجید کی روشنی میں ناموس رسالت ﷺ:
اللہ تعالی نے ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے مختلف مقامات پر قران مجید میں بڑی صراحت کے ساتھ احکامات جاری فرمائے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَO
ترجمہ:
اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے کہ،
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔
ترجمہ:
”بیشک جولوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے“
اور بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ) کے ادب کا لحاظ نہ رکھنے والوں کے بارے میں ارشادفرمایا:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ۔
ترجمہ: ’’بیشک وہ جو آپ (ﷺ) کو حُجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں‘‘-
فرمان الہی ہے کہ: ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۚ-وَ مَنْ یُّشَآقِّ اللّٰهَ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔
ترجمہ: یہ (سزا) اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کی اور جو اللہ کی مخالفت کرے تو بیشک اللہ سخت سزا دینے والاہے“۔
گستاخان رسول (ﷺ)کے لیے اللہ تعالی نے واضح طور پر وعید فرمائی
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیْنًا‘‘
’’بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے“۔
اسی طرح قران مجید میں اللہ تعالی نے ابو لہب اور اس کی بیوی کے لیے وعید فرمائی۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس طرح اللہ تعالی نے اپنے کلام قران مجید کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے اسی طرح اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا اور ان کی ناموس کے تحفظ کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر بھی عائد کر دی۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں ناموس رسالت ﷺ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’ مَنْ آذَى شَعْرَةً مِنِّي فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى الله ‘‘
’’ جس نے میرے ایک بال کو ایذا پہنچائی اس نے مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی‘‘-
: حضرت شعبی (رضی اللہ عنہ) حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان فرماتے ہیں:
’’أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ (ﷺ) وَتَقَعُ فِيْهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ النَّبِيُّ (ﷺ) دَمَهَا‘‘
’’ایک یہودیہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو سب و شتم کرتی تھی اور آپ (ﷺ) کی ذاتِ اقد س میں عیب تلاش کرتی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا حتیٰ کہ وہ مر گئی تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا (یعنی بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں بدلہ نہیں دلوایا)‘‘-
حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ)سےروایت ہے:
’ایک آدمی کی لونڈی تھی جس سے اس کے موتیوں جیسے دو بیٹے تھے اور وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو (معاذ اللہ) بُرا بھلا کہتی۔ وہ اسے منع کرتا اور جھڑکتا لیکن وہ نہ رکتی اور نہ باز آتی۔ ایک رات وہ اسی طرح رحمتِ کائنات (ﷺ) کا (نا مناسب الفاظ میں) ذکرکرنے لگی جس پر اس صحابی رسول (ﷺ) سے برداشت نہ ہوا تو اس نے ایک خنجر اٹھا کر اس کے پیٹ میں مارا اور اس پر ٹیک لگائی یہاں تک وہ اس (ملعونہ) کے آرپار ہوگیا تو رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’أَشْهَدُ أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ‘‘[22]
’’میں گواہی دیتاہوں کہ اس کا خون رائیگاں ہے‘‘۔
(بالفاظِ دیگر خاتم النبیّین (ﷺ) نے عملِ صحابی کی تائید فرمائی )
دور نبوت میں اور فتح مکہ کے موقع پر بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین نے شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی کرنے والے ملعون کعب بن اشرف سے لے کر ابی بن خلف تک ملعونوں کو واصل جہنم کیا۔
حضرت ابو نوفل(رضی اللہ عنہ) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’لھب بن ابولھب حضور نبی کریم (ﷺ) کی شانِ اقدس میں نازیبا کلمات کہتا تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’اَللَّهُمَّ سَلِّطْ عَلَيْهِ كَلْبَكَ‘‘
’’الٰہی اپنے درندوں میں سے ایک درندہ اس پر مسلط کر دے‘‘-
’’ایک دن اس نے ایک قافلے میں ملک شام جانے کا ارادہ کیا اور ایک مقام پہ پڑاؤ کر کے کہنے لگا کہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی دعا (ضرر) سے ڈرتا ہوں تو قافلے والوں نے کہا ہرگز ایسا نہیں ہو گا۔ تو انہوں نے اپنا سامان اس کے اردگرد رکھ دیا اور اس کی حفاظت کرنے کے لیے بیٹھ گئے (لیکن اللہ عزوجل کو کچھ اور منظور تھا کہ اچانک) ایک شیر آیا اور اس کو (جم غفیر میں سے) چھینا اور لے کر چلا گیا۔
’’فتح مکہ کے دن حضور نبی کریم(ﷺ)نے تما م لوگوں کیلئے عام معافی کا اعلان فرمایاسوائے چار (گستاخ) مردوں اور دو عورتوں کے- (ان کے بارے میں) آپ (ﷺ) نے اپنی زبان گوہرفشاں سے ارشادفرمایا:
’’اُقْتُلُوهُمْ، وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ‘
’’( وہ جہاں کہیں بھی ملیں ) انہیں قتل کر دو اگرچہ انہیں کعبہ شریف کے پردوں سے ہی چمٹے ہوئے پاؤ‘‘
(انہی چارمردوں میں سے )ابن خطل کعبہ کے پردوں میں لپٹاہوا پایا گیا۔ اسے قتل کرنے کے لیے حضرت عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ) اور حضرت سعید بن حریث (رضی اللہ عنہ) اس کی طرف بڑھے۔ حضرت سعید بن حریث (رضی اللہ عنہ) حضرت عمار (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ نوجوان تھے۔ حضرت سعید بن حریث (رضی اللہ عنہ) نے آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیا اسی طرح ’’مَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ‘‘ کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے بازار میں پایا اور قتل کر دیا۔ یاد رہے کہ اس دن مکہ میں گستاخوں کے ساتھ ساتھ اسلام کے بدترین دشمن موجود تھے، سب کو معافی ملی لیکن ابن اخطل ملعون کو کعبہ کے پردوں میں چھپنے کے باوجود واصلِ جہنم کیا گیا۔ حالانکہ عقلاً تو اسے حرم پاک سے دور واصلِ جہنم کیا جاتا لیکن حضور رسالت مآب (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس سے حکم مبارک ملتا ہے کہ اس کو وہیں قتل کر دو۔ ہمارے قلوب و اذہان میں یہ بات راسخ رہے کہ حضورنبی کریم (ﷺ) کے اقوال و افعال مبارکہ منشاءِ خداوند ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے خود ارشاد فرمایا:
’’وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ط اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى‘‘
ترجمہ: ’’ اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے ‘‘۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں کہ:
’’سیدنا رسول اللہ (ﷺ) نے ایک شخص کو اپنا خط مبارک عطا فرما کر روانہ فرمایا اور اس کو حکم فرمایا کہ وہ بحرین کے امیر کو دے، بحرین کے امیر نے وہ خط کسرٰی کو دے دیا۔ جب کسرٰی نے اس کو پڑھا تو اس (بدبخت) نے اس کو پھاڑ دیا۔ ابن شہاب (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ابن المسیب (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ رسول اللہ( ﷺ) نے ان کے خلاف دعا ضرر فرمائی کہ:’’أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ‘‘
ترجمہ: ’’ وہ بالکل ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں‘‘۔ علامہ ابن حجر عسقلانی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی اس دعا کو قبول فرمایا اور کسرٰی کے بیٹے شيرویہ کو اس پر مسلط فرمایا اس نے اپنے باپ کوقتل کردیا‘‘۔
تحفظ ناموس رسالت ﷺ کی اہمیت اور پاسداری
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
ناموسِ رسالت ﷺ کا تحفظ مسلمان کا اولین فریضہ ہے اور ایمان کی بنیاد ہے۔ کیونکہ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، ”تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھ سے اپنی اولاد ماں باپ اور دنیا و مافہیا سے زیادہ محبت نہ کرے“۔ جبکہ اللہ تعالی نے سیرت طیبہ کو امت مسلمہ کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس جامع اور اکمل ہے رسالت نبوت کا باب آپ پر مکمل ہوا۔ آپ ﷺ خاتم الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ آپ ﷺ کے اوصافِ حمیدہ پر مکمل ایقان ہمارے ایمان کی اساس ہے۔ آپ ﷺ تمام انبیاء اور رسولوں کے سردار ہیں۔ ”خاتم الانبیا“ آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ کا سر نامۀ لقب ہے اور خاص وصف حمیدہ ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کے بغیر ناموس رسالت ﷺ کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ اسی لیے جو ختم نبوت کا منکر ہے وہ ناموس رسالت ﷺ کا سب سے بڑاگستاخ ہے۔ ناموس رسالت ﷺ
اور عقیدہ ختم نبوت کا انکار کفر ہے۔ علامہ قاضی عیاض مالکیؒ لکھتے ہیں:
’’ہر وہ شخص جو رسول اللہ (ﷺ) کی توہین کرے یا آپ (ﷺ) پر کوئی عیب لگائے یا آپ (ﷺ)کی ذات، آپ (ﷺ) کے نسب، آپ (ﷺ) کے دین یا آپ (ﷺ) کی عادات مبارکہ میں سے کسی عادت کی طرف کوئی نقص منسوب کرے یا ان میں سے کسی عیب کا آپ (ﷺ) کی طرف اشارہ کرے یا توہین کرتے ہوئے کسی ایسی چیز سے آپ (ﷺ) کو تشبیہ دے یا آپ (ﷺ) کی تحقیر کرے یا آپ (ﷺ) کی شان کو کم کرے، آپ (ﷺ) کا استخفاف کرے یا آپ (ﷺ) کی طرف کسی عیب کی نسبت کرے تو آپ (ﷺْ) کی توہین کرنے والا شمار ہو گا۔ گویا اس کا حکم وہی ہو گا جو توہین کرنے والے کا ہوتا ہے یعنی اسے قتل کر دیا جائے گا۔ کیونکہ ارشاد گرامی ہے ”من سبا نبیاً فقتلہٗ۔ دور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے لے کر آج تک اسی پر تمام علماء اور اصحابِ فتویٰ کا اجماع ہے۔ جبکہ
تحفظ ناموس رسالت ﷺ
کے لیے اپنی جان قربان کر دینے والے عشاقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک طویل فہرست ہے
ناموس رسالت ﷺکے ساتھ ساتھ عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری اور تحفظ ہر مسلمان کا ایمانی فریضہ ہے۔ موجودہ دور میں بالخصوص مغرب اور یورپ میں ناموسِ رسالت ﷺ میں بے ادبی و توہین آئے روز کا معمول بن چکی ہے۔ کبھی یورپی ممالک میں آزادئِ رائے کی آڑ میں بدبخت غیر مسلم کی جانب سے توہین رسالت کی جاتی ہے۔ کبھی اسلاموفوبیا کے زیر اثر کوئی حرکت ہوتی ہے، تو کبھی فن اور آرٹ کے نام پر کارٹونسٹ تشدد بھرا اعلان کردیتے ہیں اور گستاخانہ خاکے شائع کیے جاتے ہیں۔ کبھی آزادیٔ اظہار کے نام پر جرأت کی جاتی ہے۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں بھی ایسے بدبخت نام نہاد لبرلز اور ترقی پسند گمراہ نوجوان شان رسالت ماب ﷺ میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں تاکہ مغرب اور یورپ میں ان کی قبولیت ہو اور وہ ترقی پسند کہلائیں۔ پاکستان میں ایسے بدبخت گستاخان کے خلاف بڑی تعداد میں مقدمات عرصہ سے زیر التواء ہیں۔ بلکہ شاتمین کی توہین پر ملک کے درجنوں مقامات پر درج ایف آئی آر سے متعلق حکمرانوں کی بے اعتنائی رہی ہے۔ اس درمیان شاتمین عالمی صہیونی طاقتوں کے زیر اثر اپنے لئے ماحول سازی میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بعد میں یہ معاملہ تعطل کا شکار رہتا ہے۔ جب کہ ہمارے حکمرانوں نے انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر مغرب کو خوش کرنے کے لیے غازی ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھا دیا حالانکہ ان کی رحم کی درخواست صدر مملکت کے پاس زیرغور تھی۔ کیا آزادی اِسی کا نام ہے کہ جھوٹی باتیں ذات اقدس سے منسوب کی جائیں؟ اور مطہر و منور ذات اقدس ﷺ سے متعلق غلط بیانی کی جائے؟ یہ اور ایسے تمام واقعات اور معاملات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب طاغوتی طاقتوں اور ملت کفر کی طرف سے اسلام میں بگاڑ پیدا کرنے اور مسلمانوں کے دلوں سے محبت رسول ﷺ ختم کرنے کی گھناؤنی اور ناپاک جسارت ہے۔ کیونکہ محبت رسول ﷺ ایک عظیم طاقت ہے۔ جس کی بنیاد پر امت مسلمہ کا وجود قائم ہے اور امت کو بقا حاصل ہے۔ جب کہ انسانی حقوق اور مادر پدر آزادئِ رائے کا دائرہ کار محدود ہے۔ ناموس رسالت کی پاسداری سب سے مقدم ہے۔ امت مسلمہ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیرت طیبہ کو اپنائے اور نئی نسل کو سیرت طیبہ سے بھرپور آگاہی دی جائے۔ جبکہ پاکستان میں تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔ گزشتہ ادوار میں بیرونی طاقتوں کی آشیر باد سے کچھ عناصر نے قانون ختم نبوت اور قانونِ تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے آئین پاکستان میں ترمیم کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ اس سلسلے میں معروف عالم دین مفتی منیب الرحمن کے مطابق مسلّمہ مکاتبِ فکر کے جمہور علما اور عامّۃ المسلمین ”قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت‘‘ کی ضرورت کے قائل ہیں اور اس بات کے حامی ہیں کہ حکومت اسے قانون کی طاقت سے نافذ کرے تاکہ لوگوں کو توہینِ مذہب کی ناپاک جسارت کرنے کی ہمت نہ ہو اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دینی مقدّسات کی حرمت محفوظ رہے۔ ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ ریاست وحکومت اپنی آئینی وقانونی ذمہ داری کو پورا کرے۔ کون ذی شعور ایسا ہے جو یہ کہے گا کہ ملک میں انارکی پھیلے؟ لاقانونیت کا راج ہو اور لوگ قانون کو ہاتھ میں لیں؟ ہمیں مسئلہ یہ درپیش ہے: ملک میں لاقانونیت کا کوئی بھی واقعہ ہو، کسی تحقیق وتفتیش اور اس کے نتائج آنے سے پہلے ہی اُسے مذہب اور اہلِ مذہب کے سر تھوپ کر مذہب کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا کے ایک حصے کی کمین گاہوں میں رونق افروز لبرلز کے لیے یہ سنہری موقع ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں دیندار طبقات کے لیے عدم قبولیت اور نفرت کے جذبات پوشیدہ ہیں۔ ہماری دیانت دارانہ رائے ہے کہ قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کے ضابطۂ کار کو مشکل بنانے کی وجہ سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لہذا ان قوانین کو ان کی اصل اور روح (یعنی شریعت مطہرہ) کے مطابق عمل میں لا کر گستاخی و شتم کی جڑوں کو اکھیڑ ڈالا جانا چاہیے۔
پاکستان میں یوم ناموس رسالت ﷺ منانا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ ناموس رسالت ﷺ کی پاسداری کے لیے من حیث القوم ہمیں اپنی دینی ذمہ داریوں کو عملی طور پر نبھانا ہوگا اور غلامئِ رسول ﷺ کے دعویٰ کو پورا کرنا ہو گا۔ اقوام عالم کو بھی باور کرانا ہوگا کہ ناموس رسالت ﷺ سمیت تمام انبیاء کرام اور مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی ناقابل قبول ہے۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کو بھی ایک واضح عالمگیر لائحہ عمل لاختیار کرنا چاہیے۔ جبکہ تحفظ ناموس رسالت ﷺ اور تحفظ ختم نبوت کے لیے وارثان اسلام کو بھی متحد و یک جان ہونا پڑے گا۔
بتلا دو گستاخِ نبی ﷺ کو، غیرتِ مسلم زندہ ہے
ان پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے