
برطانوی پارلیمان میں اسقاط حمل سے متعلق مذکورہ قانون میں ترمیم کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں 379 ووٹ اس کے حق میں جبکہ 137 اس کے خلاف دیے گئے۔ اب اس بل کو ہاؤس آف لارڈز میں پیش کیا جائے گا جہاں اس کی منظوری میں تاخیر تو ہو سکتی ہے تاہم اسے بلاک نہیں کیا جا سکتا۔

موجودہ قانون
برطانیہ، سکاٹ لینڈ اور ویلز میں موجودہ قانون کے تحت حمل کے 24 ہفتوں کے دوران اسقاط کرایا جا سکتا ہے اور اگر ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو، اس مدت کے بعد بھی۔ شمالی آئر لینڈ میں اسقاط حمل کو 2019 ء میں ناقابل تعزیر یا اسے جرم نہ قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
کووڈ 19 وبائی امراض اور اسقاط حمل
COVID-19 وبائی امراض کے دوران اسقاط حمل سے متعلق لاگو قانون میں تبدیلیوں کی اجازت دی گئی تھی۔ جن کے تحت خواتین کو بذریعہ ڈاک اسقاط حمل کی گولیاں حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اس طرح حاملہ خواتین حمل کے پہلے 10 ہفتوں کے اندر اندر اپنے گھر میں ہی اسقاط حمل کر سکتی تھیں۔ تاہم اسقاط حمل کے قانون میں لائی گئی اس نرمی سے استقادہ کرنے والی کئی خواتین کے کیسز کی عوامی سطح پر تشہیر کی گئی اور ان پر 24 ہفتوں یا اس سے زیادہ کے عرصے پر محیط اپنے حمل کو غیر قانرنی طور پر گرانے کے لیے گولیاں حاصل کرنے اور ان کا استعمال کرنے کے جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔

اسقاط حمل کے مخالف گروپ اس قانون میں نرمی کی مخالفت کا استدلال یہ دیتے ہیں کہ اس سے حمل کے کسی بھی مرحلے پر خواتین کے لیے اسقاط حمل کا راستہ کھل جائے گا۔
”سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف انبورن چلڈرن‘‘ جو خود کو برطانیہ کا سب سے بڑا ”پرو لائف‘‘ گروپ قرار دیتا ہے، کی پبلک پالیسی میجینر الیتھیا ولیمز کے بقول،”اس طرح نازائیدہ بچوں کے لیے تحفظ کی ہر گنجائش چھین لی جائے گی اور خواتین کو ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘