اہم خبریںصحت

اسقاط حمل جرم نہیں، برطانیہ میں قانونی ترمیم کی منظوری

پولیس نے گزشتہ 5 سالوں کے دوران  100  سے زائد خواتین سے مبینہ غیر قانونی اسقاط  حمل  کے بارے میں تفتیش کی

کشور مصطفیٰ اے پی کے ساتھ

برطانوی قانون سازوں کی طرف سے برطانیہ اور ویلز میں اسقاط حمل کو ناقابل تعزیر قرار دینے کی قانونی ترمیم کی منظوری دے دی گئی۔ قانون سازوں نے یہ دلیل پیش کی کہ اسقاط حمل کو جرم قرار دیتے ہوئے خواتین پر مقدمہ چلانا ظلم ہے۔

جرمنی میں اسقاطِ حمل سے منسلک پیچیدگیاں

برطانوی پارلیمان میں  اسقاط حمل  سے متعلق مذکورہ قانون میں ترمیم کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں 379 ووٹ اس کے حق میں جبکہ 137 اس کے خلاف دیے گئے۔ اب اس بل کو  ہاؤس آف لارڈز میں  پیش کیا جائے گا جہاں اس کی منظوری میں تاخیر تو ہو سکتی ہے تاہم اسے بلاک نہیں کیا جا سکتا۔

ہسپانوی پولیس میڈرڈ میں حقوق نسواں کے گروپس کے اراکین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے
گزشتہ سال میڈرڈ میں حقوق نسواں کے گروپس کے اراکین نے اسقاط حمل کے قانون کے خلاف مظاہرہ کیا اور مظاہرین کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھاتصویر: Richard Zubelzu/ZUMA/picture alliance

 موجودہ قانون

برطانیہ، سکاٹ لینڈ اور ویلز میں موجودہ قانون کے تحت حمل کے 24 ہفتوں کے دوران  اسقاط  کرایا جا سکتا ہے اور  اگر ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو، اس مدت کے بعد بھی۔ شمالی آئر لینڈ میں اسقاط حمل کو 2019 ء میں  ناقابل تعزیر یا اسے جرم نہ قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

کووڈ 19 وبائی امراض اور اسقاط حمل

COVID-19 وبائی امراض کے دوران اسقاط حمل سے متعلق لاگو قانون میں تبدیلیوں کی اجازت دی گئی تھی۔ جن کے تحت خواتین کو بذریعہ ڈاک اسقاط حمل کی گولیاں حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اس طرح حاملہ خواتین حمل کے پہلے  10 ہفتوں کے اندر اندر اپنے گھر میں ہی  اسقاط حمل  کر سکتی تھیں۔ تاہم اسقاط حمل کے قانون میں لائی گئی اس نرمی سے استقادہ کرنے والی کئی خواتین کے کیسز کی عوامی سطح پر تشہیر کی گئی اور ان پر 24 ہفتوں یا اس سے زیادہ کے عرصے پر محیط  اپنے حمل کو غیر قانرنی طور پر گرانے کے لیے گولیاں حاصل کرنے اور ان کا استعمال کرنے کے جرم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔

امریکہ میں ریپروڈکٹیو رائٹس کے لیے سرگرم خواتین کا احتجاج
لاس اینجلس میں 2024 ء میں ریپروڈکٹیو رائٹس کے لیے سرگرم خواتین نے ایک بڑا مظاہرہ کیا تھاتصویر: FREDERIC J. BROWN/AFP

اسقاط حمل کے مخالف گروپ اس قانون میں نرمی کی مخالفت کا استدلال یہ دیتے ہیں کہ اس سے حمل کے کسی بھی مرحلے پر خواتین کے لیے  اسقاط حمل  کا راستہ کھل جائے گا۔

”سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف انبورن چلڈرن‘‘ جو خود کو برطانیہ کا سب سے بڑا ”پرو لائف‘‘ گروپ قرار دیتا ہے، کی پبلک پالیسی میجینر الیتھیا ولیمز کے بقول،”اس طرح نازائیدہ بچوں  کے لیے تحفظ کی ہر گنجائش چھین لی جائے گی اور خواتین کو ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button