
سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آف جرمنی کے ساتھ
حکومت پاکستان نے ایک حیران کن لیکن نہایت مؤثر سفارتی اقدام کے تحت سابق امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کرنے کی سفارش کی ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر ایک اعزازی تجویز معلوم ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ پاکستان کی غیر معمولی سفارتی ذہانت اور دور اندیشی کا مظہر ہے، جس نے نہ صرف خطے میں امن کو ترجیح دی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور مؤقف کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔
یقیناً! پاکستان کی جانب سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو "نوبل امن انعام” دینے کی سفارش محض ایک رسمی تجویز نہیں، بلکہ ایک شاندار سٹریٹجک ماسٹر اسٹروک ہے، جو بیک وقت کئی سفارتی، سیاسی اور عالمی مفادات کا احاطہ کرتا ہے۔ آئیے اس فیصلے کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ اتنا "قابل تحسین” کیوں ہے؟
امن کا علمبردار، ایٹمی تصادم کا روک تھام کنندہ
پاکستانی حکومت کی سفارش کے مطابق، صدر ٹرمپ کی فیصلہ کن اور فعال قیادت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو ایک مکمل ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے سے روک دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں ممالک کی افواج مکمل تیاری کے ساتھ سرحد پر موجود تھیں اور معمولی سی چنگاری ایک بڑی تباہی کو جنم دے سکتی تھی۔
ایسے نازک مرحلے پر صدر ٹرمپ کی ذاتی مداخلت، واشنگٹن، اسلام آباد اور نئی دہلی کے ساتھ سفارتی پل تعمیر کرنے کی کاوشیں، اور مذاکرات کے ذریعے جنگ کو ٹالنے کی حکمت عملی نے صرف چند دنوں میں کشیدگی کو امن میں تبدیل کر دیا۔
امن کے ساتھ خوشحالی: تجارت، نہ کہ پابندیاں
صدر ٹرمپ نے صرف جنگ روکنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی پیشکش کی۔ انہوں نے دباؤ، پابندیوں یا جارحیت کے بجائے ترقی اور خوشحالی پر مبنی ایجنڈا اپنایا، جو کہ ایک ترقی یافتہ عالمی قائد کی قیادت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے اقدامات نے پاکستانی عوام کے لیے معاشی امیدوں کی ایک نئی کرن پیدا کی اور امریکی سفارت کاری کو ایک نئے، مثبت زاویے سے پیش کیا۔
پاکستان کا وقار بلند، خودمختاری کا احترام
صدر ٹرمپ نے عالمی سطح پر پاکستان کو "ایک عظیم اور شاندار ملک کی قیادت میں شاندار قیادت” سے تعبیر کیا، جو کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے اب تک کا سب سے بڑا اعتراف ہے۔ یہ الفاظ نہ صرف پاکستان کے لیے عزت افزائی کا باعث بنے بلکہ دنیا بھر میں اس کے مثبت تاثر کو بھی جِلا بخشی۔
مزید برآں، صدر ٹرمپ نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو جس طرح احترام دیا، وہ اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ پاکستان کی خودمختاری اور دفاعی صلاحیتوں کو تسلیم کرتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت کا دوبارہ احیاء
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا—ایسا مسئلہ جسے بھارت برسوں سے "اندرونی معاملہ” قرار دے کر عالمی توجہ سے دور رکھنا چاہتا تھا۔ ٹرمپ نے اس دیرینہ تنازع کو عالمی منظرنامے پر دوبارہ زندہ کر کے اسے ایک انسانی مسئلے کی حیثیت دی، جس کے لیے ثالثی کی پیشکش نے پاکستان کے مؤقف کو تقویت بخشی۔
بھارت کی ناراضگی: ٹرمپ کی سفارت کاری کی کامیابی کا ثبوت
ٹرمپ کی امن کوششوں سے نہ صرف پاکستان کو فائدہ ہوا بلکہ بھارت کو شدید سفارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں ٹرمپ کی ثالثی پر ناراضی اور تنقید اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹرمپ نے خطے میں کسی ایک فریق کی حمایت کے بجائے غیر جانب دارانہ، اصولی اور حقیقی امن کی کوشش کی، جو عالمی سفارت کاری میں کم ہی نظر آتی ہے۔
پاکستان کا فخر، عالمی امن کا اعتراف
پاکستانی حکومت کا مؤقف واضح ہے:”صدر ٹرمپ نے نہ صرف ایٹمی تصادم کو روکا، بلکہ امن، تجارت، احترام اور سفارت کاری کو فروغ دے کر عالمی قیادت کا اصل چہرہ دکھایا۔ یہ صرف پاکستان کے لیے نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک قابلِ تقلید ماڈل ہے۔”
اسی بنا پر پاکستان نے فخر سے اعلان کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا صرف ایک اعتراف نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے خدمات کا احترام ہے۔
ایک فیصلہ، کئی سفارتی فوائد
یہ سفارش پاکستان کی سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جو بیک وقت:
پاکستان کے مؤقف کو تقویت دیتی ہے
عالمی قیادت کے ساتھ نئے رشتے استوار کرتی ہے
مسئلہ کشمیر کو دوبارہ زندہ کرتی ہے
بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو بے نقاب کرتی ہے
اور عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بلند کرتی ہے
یہ صرف ایک تجویز نہیں، بلکہ ایک فکری حملہ ہے — ایک سٹریٹجک ماسٹر اسٹروک — جو عالمی سفارت کاری کے شطرنج میں پاکستان کو بادشاہ کی اگلی چال دیتا ہے۔