اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی): شبہاز شریف کی زیر قیادت موجودہ حکومت کے ابتدائی 16 ماہ میں ملک کے توانائی (پاور) سیکٹر میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے مطابق پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 1,065 ارب روپے کی نمایاں کمی کے بعد 2,679 ارب روپے سے گھٹ کر 1,614 ارب روپے پر آگیا ہے۔
پاور ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین دستاویزات کے مطابق جون 2025 کے اختتام تک پاور سیکٹر کا مجموعی گردشی قرضہ 1,614 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، جب کہ صرف فروری 2024 تک یہ قرضہ 2,679 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ چکا تھا۔
ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر بھی نمایاں بہتری
دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مئی 2025 کے مقابلے میں جون 2025 میں پاور سیکٹر کے گردشی قرض میں 856 ارب روپے کی نمایاں کمی واقع ہوئی۔ مئی 2025 میں گردشی قرضہ 2,470 ارب روپے تھا، جو اگلے ہی ماہ یعنی جون میں کم ہو کر 1,614 ارب روپے رہ گیا۔
اسی طرح مالی سال 2023-24 کے دوران بھی پاور سیکٹر کے گردشی قرض میں 779 ارب روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ جون 2024 تک گردشی قرضہ 2,393 ارب روپے تھا، جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں واضح طور پر کم تھا۔
حکومت کی اصلاحاتی حکمت عملی
توانائی کے شعبے میں یہ بہتری حکومت کی جانب سے کی جانے والی متعدد اصلاحاتی اقدامات کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے۔ ان اقدامات میں لائن لاسز (بجلی کی چوری اور ضیاع) میں کمی، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی کارکردگی بہتر بنانے، واجبات کی بروقت وصولی اور مالی نظم و ضبط شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق، حکومت نے مالیاتی ڈسپلن کو بہتر بنانے، IPPs (نجی بجلی گھروں) کے ساتھ معاہدوں میں بہتری لانے، اور سبسڈی کو ہدفی بنانے جیسے اقدامات بھی کیے ہیں جن کا براہ راست اثر گردشی قرضے پر پڑا ہے۔
ماہرین کی رائے
توانائی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اسی رفتار سے اصلاحات جاری رکھے تو آئندہ چند برسوں میں گردشی قرضے کا مکمل خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے، جو گزشتہ دہائی سے پاکستان کے توانائی شعبے کا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔
تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ وقتی بہتری کو مستقل حل میں تبدیل کرنے کے لیے اصلاحات کا تسلسل، بجلی کی قیمتوں میں توازن، اور ادارہ جاتی بہتری ناگزیر ہے۔
نتیجہ
حکومت کی جانب سے جاری کردہ ان اعداد و شمار نے جہاں ایک مثبت مالی اشارہ فراہم کیا ہے، وہیں یہ بھی واضح کیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں بہتری ممکن ہے بشرطیکہ اس کے لیے ٹھوس اور دیرپا اقدامات کیے جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت آئندہ مہینوں میں اس رفتار کو برقرار رکھنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔



