پاکستاناہم خبریں

پاکستان کی پہلی معاشی مردم شماری جاری: 6 لاکھ مساجد، صرف 23 ہزار فیکٹریاں، روزگار کا بڑا ذریعہ سروسز سیکٹر

یہ اعدادوشمار پاکستان کے سماجی و اقتصادی ترجیحات اور ترقیاتی ساخت کو ایک نئی نظر سے دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں

خصوصی رپورٹ

پاکستان میں پہلی مرتبہ ہونے والی جامع معاشی مردم شماری نے ملک کے معاشی ڈھانچے، پیداواری صلاحیت، روزگار کے ذرائع اور اداروں کی نوعیت پر کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ جمعرات کے روز وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے اس تاریخی رپورٹ کا باضابطہ اجراء کیا، جو نہ صرف کئی دہائیوں سے موجود معلوماتی خلا کو پر کرنے کی ایک اہم کوشش ہے بلکہ آئندہ معاشی منصوبہ بندی کے لیے بنیادی سنگِ میل بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

6 لاکھ مساجد، 36 ہزار مدارس، اور صرف 23 ہزار فیکٹریاں

رپورٹ کے سب سے نمایاں انکشافات میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں مساجد کی تعداد 6 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ فیکٹریوں کی تعداد محض 23 ہزار ہے۔ اسی طرح، ملک بھر میں مدارس کی تعداد 36,000 سے زائد ہے جن میں زیادہ تر پنجاب میں واقع ہیں۔ یہ اعدادوشمار پاکستان کے سماجی و اقتصادی ترجیحات اور ترقیاتی ساخت کو ایک نئی نظر سے دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ملک میں 72 لاکھ معاشی ادارے، لیکن زیادہ تر بہت چھوٹے پیمانے پر

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر 4 کروڑ کے قریب مستقل معاشی یونٹس میں سے تقریباً 72 لاکھ ادارے وہ ہیں جہاں باقاعدہ معاشی سرگرمی انجام دی جاتی ہے۔ ان اداروں میں 2023 تک تقریباً 2 کروڑ 54 لاکھ افراد کام کر رہے تھے۔ حیران کن طور پر، ان میں سے زیادہ تر ادارے انتہائی چھوٹے سائز کے ہیں—ایسے یونٹس جن میں 1 سے 50 تک ملازمین کام کرتے ہیں، ان کی تعداد 71 لاکھ سے زائد ہے۔

وہ ادارے جن میں 51 سے 250 افراد کو ملازمت حاصل ہے، ان کی تعداد محض 35,351 ہے، جبکہ 250 سے زائد ملازمین رکھنے والے ادارے صرف 7,086 ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں بڑی صنعتوں اور اداروں کی شدید کمی ہے، جو کہ معیشت کی پائیداری اور روزگار کی وسیع مواقع کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

سروسز سیکٹر سب سے بڑا روزگار فراہم کرنے والا شعبہ

معاشی مردم شماری نے ایک عام تاثر کو بھی غلط ثابت کیا ہے کہ ملک میں روزگار کی سب سے بڑی فراہمی صنعت کے شعبے سے ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سروسز سیکٹر کل افرادی قوت کے 45 فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے، جو کہ تمام دیگر شعبوں سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد زراعت اور صنعت آتی ہیں۔

صوبہ پنجاب سب سے آگے، بلوچستان پیچھے رہ گیا

رپورٹ میں صوبہ پنجاب کو تمام معاشی اشاریوں میں سب سے آگے قرار دیا گیا ہے۔ یہاں 1 کروڑ 36 لاکھ افراد مختلف اداروں میں کام کر رہے ہیں، جو پیداواری اور سروسز دونوں شعبوں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سندھ میں 57 لاکھ، خیبرپختونخوا میں 40 لاکھ اور بلوچستان میں صرف 14 لاکھ افراد ورک فورس کا حصہ ہیں، جو علاقائی معاشی تفاوت کو اجاگر کرتا ہے۔

تعلیمی و صحت کے ادارے بھی نمایاں

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی اداروں کی بڑی تعداد موجود ہے، جن میں 2 لاکھ 42 ہزار 616 اسکول شامل ہیں۔ ان میں سے اکثریت سرکاری شعبے میں ہے۔ اس کے علاوہ 11,568 کالج اور 214 جامعات ہیں، جن میں کالجوں میں نجی شعبے کا غلبہ ہے۔

صحت کے شعبے میں، ملک بھر میں ایک لاکھ 19 ہزار 789 اسپتال، کلینکس، ڈسپینسریاں اور دیگر طبی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے موجود ہیں، جن میں بھی اکثریت نجی شعبے کی ہے۔ مدارس کی تعداد 36 ہزار سے زائد ہے، جو معاشرتی و مذہبی تعلیم کے پھیلاؤ کی عکاسی کرتی ہے۔

خاندانوں کی سطح پر معاشی سرگرمیاں

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک بھر میں تقریباً 56 لاکھ گھرانے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں مصروف ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں سرگرمی مویشی پالنا ہے، جس میں 51.4 فیصد گھرانے مشغول ہیں۔ اس کے بعد 41 فیصد گھرانے مختلف متفرق سرگرمیوں سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ 3.9 فیصد درزی کا کام کرتے ہیں، 1.4 فیصد کڑھائی سے منسلک ہیں اور 1.3 فیصد پولٹری فارم چلاتے ہیں۔ بیوٹی پارلر، کھانے کی پیکنگ، آن لائن خدمات جیسی سرگرمیاں ایک فیصد سے بھی کم شرح پر ریکارڈ کی گئی ہیں۔

معاشی مردم شماری: ایک تاخیر شدہ مگر ضروری قدم

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے رپورٹ کے اجراء کے موقع پر بتایا کہ یہ مردم شماری ایک تاریخی اقدام ہے جس کا مقصد معیشت کے ڈھانچے، سرگرمیوں، روزگار کی نوعیت، اور اداروں کی ملکیت کے بارے میں جامع ڈیٹا فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک معاشی مردم شماری سے محروم رہا، جس کی وجہ سے پالیسی سازی میں ایک اہم خلا موجود تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے برعکس، بھارت 1977 سے اب تک سات معاشی مردم شماریاں کر چکا ہے، جبکہ بنگلہ دیش، جو 1971 میں پاکستان سے علیحدہ ہوا، تین مرتبہ یہ عمل مکمل کر چکا ہے۔ پاکستان میں 2003 میں ایک کوشش کی گئی تھی، لیکن اس وقت اسے آبادی کی مردم شماری کے سانچے میں ضم کرنے کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

پالیسی سازی کے لیے نئی بنیاد

پاکستان کی یہ پہلی معاشی مردم شماری معیشت کے مکمل اور حقیقی چہرے کو پیش کرتی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو بڑے پیداواری اداروں، صنعتی ترقی، اور متنوع روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے شعبوں کی شدید ضرورت ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف پالیسی سازوں کے لیے راہنمائی فراہم کرے گی بلکہ مستقبل کی ترقیاتی حکمت عملیوں، بجٹ سازی، اور روزگار کی منصوبہ بندی کے لیے بھی ایک اہم دستاویز ثابت ہو گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button