یورپتازہ ترین

کیا جرمنی میں جرائم بڑھ رہے ہیں؟ زمینی حقائق، اعداد و شمار اور مہاجرت سے جُڑے پہلو

2024 میں جرمنی کی قتل کی شرح 0.91 فی ایک لاکھ رہی، جو دنیا بھر میں 147 ویں نمبر پر ہے۔

برلن/فرینکفرٹ (خصوصی تجزیاتی رپورٹ)
حالیہ برسوں میں جرمنی میں منشیات، چاقو کے حملوں اور سڑکوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات جرمن اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز اور یوٹیوبرز کی رپورٹنگ جرمنی کی گلیوں، خاص کر بڑے شہروں کے خطرناک علاقوں، کو دنیا کے سامنے ایک مختلف انداز میں پیش کر رہی ہیں۔

اسی تناظر میں جنوبی افریقی-جرمن یوٹیوبر کرٹ کاز کی وائرل ویڈیو نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا ہے، جس میں انہوں نے فرینکفرٹ کے سینٹرل ریلوے اسٹیشن کے ارد گرد کے علاقے کو ’’نیا جرمنی‘‘ قرار دیا، جو ان کے بقول ’’جرائم، غیر قانونی تارکین وطن، اور منشیات کے قبضے میں ہے۔‘‘

یہ ویڈیو یوٹیوب پر 60 لاکھ اور ٹک ٹاک پر ایک کروڑ سے زائد بار دیکھی جا چکی ہے، اور اس پر کیے گئے ہزاروں تبصروں میں واضح طور پر نسلی اور امتیازی رویے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔


زمینی حقائق: کیا جرمنی واقعی غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

ماہرین کے مطابق جرمنی کے کچھ مخصوص علاقے، جیسے کہ فرینکفرٹ کا ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ، روایتی طور پر جرائم کا گڑھ رہے ہیں۔ کریمنالوجسٹ سوزانے کاراشٹڈ کہتی ہیں کہ ’’یہ علاقے منشیات، غربت، بے گھری اور تشدد کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔‘‘

تاہم اگر پورے ملک کو دیکھا جائے تو جرمنی کو عالمی سطح پر ایک محفوظ ملک مانا جاتا ہے۔ کاراشٹڈ کے مطابق، جرمنی سمیت بیشتر مغربی ممالک میں 1980 اور 1990 کی دہائیوں کے مقابلے میں آج جرائم کی مجموعی شرح کم ہو چکی ہے۔ اس میں ڈیجیٹل سکیورٹی، نگرانی کے نظام، اور بہتر قانون سازی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔


قتل کی شرح: عالمی معیار پر جرمنی کی پوزیشن

قتل جیسے سنگین جرائم کا جائزہ لینے کے لیے بین الاقوامی طور پر "قتل فی ایک لاکھ افراد” کی شرح کو ایک "گولڈ اسٹینڈرڈ” سمجھا جاتا ہے۔

  • 2024 میں جرمنی کی قتل کی شرح 0.91 فی ایک لاکھ رہی، جو دنیا بھر میں 147 ویں نمبر پر ہے۔

  • اس کے برعکس جنوبی افریقہ اور ایکواڈور میں یہ شرح 40 فی ایک لاکھ سے زائد ہے۔

  • امریکہ میں یہ شرح 5.76 ہے، جب کہ جرمنی میں 20 سال قبل یہ شرح 2.5 فی ایک لاکھ تھی۔

یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ جرمنی میں قتل جیسے سنگین جرائم میں وقت کے ساتھ کمی واقع ہوئی ہے، اگرچہ بعض مخصوص جرائم، جیسے چاقو سے حملے یا سڑکوں پر مارپیٹ، میں حالیہ برسوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔


مہاجرت اور جرائم: حقائق اور غلط فہمیاں

سوشل میڈیا اور بعض سیاسی حلقوں میں مہاجرین کو جرائم سے جوڑنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات سراسر سادہ کاری (oversimplification) ہے۔

سوزانے کاراشٹڈ کہتی ہیں:

"اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مہاجرین مقامی جرمن شہریوں کے مقابلے میں کم جرائم کرتے ہیں۔”

لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ بعض نوجوان مہاجر مردوں میں ایسے عوامل پائے جاتے ہیں جو ان کے تشدد میں ملوث ہونے کے خطرات کو بڑھا دیتے ہیں۔ مثلاً:

  • اکیلے آنا اور سماجی کنٹرول کا فقدان

  • جنگ یا خانہ جنگی سے گزرنے کے بعد پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل

  • بیروزگاری اور مواقع کی کمی

  • تعلیم اور سماجی سپورٹ سسٹمز کی عدم موجودگی


شہری اور دیہی علاقوں میں فرق

جرمن انسٹیٹیوٹ "آئیفو” اور یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز کولون کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ:

  • شہروں میں جرائم کی شرح دیہات کی نسبت زیادہ ہے۔

  • زیادہ تر مہاجرین شہروں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں، جہاں سماجی مسائل زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔

  • تعلیم، رہائش، اور خاندانی استحکام جیسے عوامل جرائم پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔

کریمنالوجسٹ گینا روزا وولنگر کہتی ہیں:

"جرمن اور غیر جرمن نوجوانوں میں تشدد کی وجوہات تقریباً یکساں ہوتی ہیں، مگر مہاجرین میں خطرے کے عوامل کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔”


جرائم کے سرکاری اعداد و شمار: کتنے مکمل ہیں؟

جرمنی میں جرائم کا سب سے بڑا ڈیٹا بیس وفاقی کریمنل پولیس آفس (BKA) فراہم کرتا ہے، تاہم یہ صرف وہ جرائم شامل کرتا ہے جو پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔

کئی جرائم، خاص طور پر:

  • گھریلو تشدد

  • جنسی ہراسانی یا زیادتی

  • دیہی علاقوں میں تشدد
    ایسے ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں کیے جاتے، جس سے اعداد و شمار حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

سوزانے کاراشٹڈ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر جنسی جرائم اجنبیوں کی بجائے قریبی افراد کی جانب سے کیے جاتے ہیں، جیسے کہ چچا، سوتیلا والد، استاد یا کوچ۔


ذاتی تجربات کی روشنی میں جرمنی کی تصویر

سوزانے کاراشٹڈ، جو اب آسٹریلیا میں مقیم ہیں، کہتی ہیں:

"جب بھی میں اپنے آبائی شہر ہیمبرگ آتی ہوں، تو خود کو مکمل طور پر محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ یہاں تک کہ رات کے وقت میٹرو میں بھی۔”

ان کے مطابق:

"جرمنی آج بھی ایک محفوظ، منظم اور مہذب ملک ہے — اگرچہ شاید آسٹریلیا جتنا دوستانہ نہیں، مگر جرمنی میں زندگی آج بھی پرامن ہے۔”


نتیجہ: جرمنی — حقیقت یا تصور؟

جرمنی میں جرائم کے حوالے سے پھیلنے والی وائرل ویڈیوز، مہاجرین سے متعلق منفی بیانیہ، اور سوشل میڈیا پر جذباتی تبصرے بظاہر ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں، مگر اعداد و شمار، تحقیقی رپورٹس، اور ماہرین کی آراء کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

اگرچہ مخصوص شہری علاقوں میں جرائم کی شرح بلند ہے، اور مہاجر نوجوانوں میں بعض خطرناک عوامل موجود ہیں، مگر مجموعی طور پر جرمنی دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں شامل ہے۔

اصل چیلنج مہاجرین کے مؤثر انضمام، تعلیم، معاشی مواقع، اور سماجی تحفظ کو یقینی بنانا ہے — تاکہ جرائم کی بنیادی وجوہات کو ختم کیا جا سکے، نہ کہ صرف اُن کی سطحی علامات سے نمٹا جائے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button