
کسی کی مقبولیت پلک جھپکتے ختم نہیں ہوتی !……..ناصف اعوان
بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب لوگ اُلو باٹے نہیں کہ وہ کسی بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں لہذا ان ساری سرگرمیوں کے باوجو کسی بندے سے پوچھا جاتاہے کہ اسے کون سا لیڈر پسند ہے تو وہ کہتا ہے کہ عمران خان
موجودہ حکومت جو ٹیڑھے میڑھے راستے پر چل کر تخت نشیں ہوئی ہے مختلف منصوبوں اور پروگراموں کے ذریعے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنا چاہ رہی ہے لہذا وہ جہاں کارکردگی دکھا رہی ہے تو وہاں اس کی تشہیر بھی کر رہی ہے اس مقصد کے لئے پرنٹ وقومی الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات دئیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کو بھی بروئے کار لایا جارہا ہےکہ اس وقت یہی سب سے موثر ذریعہ ابلاغ ہے ۔
اس حوالے سے پنجاب حکومت سب سے زیادہ متحرک اور سنجیدہ نظر آتی ہے
اس کے کچھ وزیر سب سے زیادہ انحصار سوشل میڈیا پر ہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہوں نے اپنے شعبوں کی سر گرمیوں کی ویڈیوز بنا کر فیس بک ‘ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر چڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے لوگوں میں ان کے لئے نرم گوشہ بھی پیدا ہو رہا ہے مگر وہ یہ کیوں نہیں بتا رہے کہ اگر اس نظام کو ہی درست سمت پر ڈال دیا جائے تو یہ جو این جی اوز کی طرز پر عوام کے معدودے چند مسائل حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کی ضرورت ہی نہ پڑے مگر اس طرف ان کا آنا محال ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی اہمیت کم ہوتی ہے عوام ان کے زیر اثر نہیں رہتے جبکہ انہیں لوگوں کو اپنے گرد جمع رکھنے اور منتیں ترلے کروانے سے تسکین ملتی ہے ان کے اندر حرص و ہوس کا مارا انسان خود کو توانا محسوس کرتا ہے لہذا وہ غریب عوام کو اپنا دست نگر ہی رکھنا چاہتے ہیں اور اس سے اپنی مقبولیت بڑھانا چاہتے ہیں ۔
یقین کیجئیے اب لوگ جو سوشل میڈیا کے دور میں جی رہے ہیں ان پر شعور و آگہی کے در آہستہ آہستہ کھلتے چلے جا رہے ہیں وہ حکمرانوں کے طرز عمل کو خوب سمجھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ یہ جو منصوبے متعارف کروائے جا رہے ہیں سب کے سب سطحی و عارضی ہیں ان سے وقتی ریلیف ضرور مل رہا ہے مگر انہیں تو مستقل بنیادوں پر مسائل کا حل چاہیے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ان پروگراموں سے ان کی غربت افلاس کم یا ختم ہو سکتی ہے انہیں سستا انصاف میسر آسکتا ہے‘ اداروں میں موجود رشوت سفارش کے عفریت سے چھٹکارا مل سکتا ہے ‘مہنگائی مافیا کو نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔ غریب عوام کا پیسا ہتھیانے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا گریبان پکڑا جا سکتا ہے ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہو گا پھر یہ رنگ برنگی سکیمیں اس قدر بھاری قرضے لے کر شروع کی جا رہی ہیں کہ ان کی ادائی مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتی ہے کیونکہ ہمارے پاس صنعتوں کا بحران ہے جو پیداوار دیتی ہیں جنہیں باہر بھیجا جاتا ہے ۔ جس سے ایک مربوط نظام کے تحت عوام کی خوشحالی و ترقی کی راہ ہموار کی جاتی ہے مگر ایسا دُور دُور تک نہیں دیکھا جا سکتا لہذا یہ آنیاں جانیاں بس ایک بھاگ دوڑ ہی ہے جس سے مسائل کی دلدل میں دھنسا ملک عزیز گلوخلاصی حاصل نہیں کر سکتا ۔
بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب لوگ اُلو باٹے نہیں کہ وہ کسی بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکیں لہذا ان ساری سرگرمیوں کے باوجو کسی بندے سے پوچھا جاتاہے کہ اسے کون سا لیڈر پسند ہے تو وہ کہتا ہے کہ عمران خان اس سے یہ بات ثابت ہے کہ انہیں کسی صورت بھی غیر مقبول نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ وہ پس زنداں رہ کر بھی عوام کے دلوں میں رچ بس چکے ہیں جنہیں آسانی سے باہر نہیں نکالا جا سکتا بالکل اسی طرح جس طرح بھٹو صاحب کو آج تک لوگ یاد کرتے ہیں اور ان کی پارٹی بھلے سکڑ سمٹ گئی ہے مگر باقی ہے۔ اس کے سکڑنے سمٹنے کی وجہ اس کی قیادت ہے کیونکہ اس نے پیپلز پارٹی کی بنیادی سوچ کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے اس کےوہ نعرے جنہوں نے عوام کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا اب وہ اسے بھول چکی ہے اس پر سرداروں‘ وڈیروں ‘ جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں اور نوابوں کا قبضہ ہے جو غریب کارکنوں کو اچھوت سمجھتے ہوئے ان سے بہت دور جا کھڑے ہوئے ہیں
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پلک جھپکتے میں اپنی ساکھ سے محروم نہیں ہوتی اسے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے اپنی مقبولیت کھونے کے لئے لہذا پی ٹی آئی کو بھی کئی برس چاہیں ہوں گے غیر مقبول ہونے میں ۔
بہرکیف حکومتیں اپنا کام کر رہی ہیں وہ مسائل جو عمومی تھے ان کو بھی حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اس عمل کو وہ نمایاں کرنے کے لئےسوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہیں مگر بات وہی کہ انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے۔
” اپنے جاوید خیالوی کا کہنا ہے کہ اب حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عمران خان کے لئے نرم رویہ اختیار کریں ۔جیل سے باہر آنے میں ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں کیونکہ جتنا وہ رکاوٹیں ڈالیں گے وہ اتنا ہی ہمدردیاں حاصل کریں گے ۔یہ بات انہیں نہیں بھولنی چاہیے کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو اس کے اقدامات سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد سخت نالاں تھی ۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ چیخ اٹھے تھے اور اس سے نفرت کر نے لگے تھے اگرچہ اس نے صحت کارڈ و دیگر سہولتیں دی تھیں مگر وہ بھاری قرضے لے کر ہی دی گئی تھیں ۔ جن کی ادائی کے لئے ٹیکسوں کی بھر مار کر دی گئی تھی ۔خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ آئندہ پی ٹی آئی کو لوگ انتہائی کم ووٹ دیں گے مگر جب اسے گھر بھیجا گیا تو اس کو ان ہی لوگوں نے کاندھوں پر اٹھا لیا اور اب تک اسے نیچے نہیں اتار رہے لہذا واحد راستہ یہ ہے کہ خان کو باہر لے آیا جائے تاکہ ان کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی ہوئی مقبولیت کا سلسلہ تھم سکے “
ہمیں جاوید خیالوی کی باتوں سے مجموعی طور سے اتفاق ہے کہ انہیں آزاد کر دیا جائے تو یقیناً صورت حال مختلف ہو سکتی ہے اور حکمرانوں کو ریلیف پروگرام کا ثمر بھی انہیں مل سکتا ہے مگر شاید وہ اس تجویز کو سنجیدہ نہیں لے سکتے انہیں یہ خوف ہے کہ اگر خان جیل سے باہر آگیا تو ان کا اقتدار ی پروگرام متاثر ہو سکتا ہے ان کے جاری اقدامات کی اہمیت کم ہو سکتی ہے لہذا ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں مگر کب تک ؟ انہیں ان نہیں تو کل بنی گالہ واپس آنا ہے کیونکہ زیادہ دیرتک انہیں سلاخوں کے پیچھے رکھنا ممکن نہیں ہو گا کہ ایک منظر آخر کار پیچھے چلا جاتا ہے لہذا اہل سیاست و اقتدار حکمت و دانائی سے کام لیتے ہوئے ماحول کو خوشگوار بنانے کی طرف آئیں تاکہ سب مل کر وطن عزیز کو چاروں طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کر سکیں اور اس پر غربت بے روزگاری اور ناانصافی کی پھیلی سیاہ چادر کو ہٹا سکیں !

