
یہ جو ملتان سے محبت ہے ( 2)……حیدر جاوید سید
اسی چوبارے پر ایک دن اطلاع ملی کہ فلاں مولانا وفات پا گئے ہیں مٹھائی خریدی اور بانٹ دی جماعت اسلامی والے عقیل صدیقی مرحوم نے ہمارے والد بزرگوار سے پراحتجاج شکایت کی
ذکرِ ملتان شروع ہوتو اندر کا ملتانی کروٹ لے کر بیدار ہی نہیں ہوتا بلکہ ہاتھ پکڑ کر ملتان کے گلی محلوں کے ساتھ گزرے ماہ و سال کی سیر بھی کراتا ہے میں ملتان میں گزارے سات دنوں کی باتیں ملاقاتیں اور قصے سنانا چاہتا تھا لیکن بات سے بات نکلتی چلی گئی یادوں کے اوراق الٹتے پلٹتے کوئی قصہ پہلے سے پڑھا ہوا لگے تو مجھ ملتانی کو معاف کر دیجئے گا
ملتان اور ملتانیوں کی یادیں اور باتیں اتنی زیادہ ہیں کہ کئی دفتر لکھے جاسکتے ہیں ہمارے بلوچ لالہ عمر علی خان بلوچ اور حکیم محمود خان غوری وہ دو دوست تھے کہ ہمارے والد بزرگوار کو جب جب ہم سے شکایت ہوئی وہ ان میں سے کسی ایک تک پہنچے ہاں ایک بار عزیز نیازی کے چیمبر میں ہماری شکایات کا پلندہ لئے بھی گئے تھے یہ تب کی بات ہے جب ہم نے اپنے باباجان کے ایک محبوب رہنما ( مولانا سید مودودی ) جو ان کے ذاتی دوست بھی تھے کی وفات پر مٹھائی بانٹی تھی
ناب اسے اتفاق کہہ لیجے کہ ان دنوں ہم ملتان آکر لالہ عمر علی خان بلوچ کے سرائیکی ادب والے چوبارے پر مقیم تھے بلوچ لالہ نے اپنے دفتر والے فو کی ایکسٹینشن اوپر چوبارے میں لگوادی جتنے دن قیام رہتا فون لگا رہتا ہماری واپسی کے ساتھ ہی ایکسٹینشن اتر کر ان کے گھر جمع ہوجاتی اسی چوبارے پر ایک دن اطلاع ملی کہ فلاں مولانا وفات پا گئے ہیں مٹھائی خریدی اور بانٹ دی جماعت اسلامی والے عقیل صدیقی مرحوم نے ہمارے والد بزرگوار سے پراحتجاج شکایت کی
ابو جان ان دنوں چھٹیوں پر سعودی عرب سے آئے ہوئے تھے شکایت سن کر انہوں نے پہلے تو ہماری والدہ محترمہ سے ہماری ملتان میں موجودگی بارے دریافت کیا یہ تصدیق ہوتے ہی کہ ہم ملتان میں ہیں اور اپنے مستقل ٹھکانے یعنی عمر علی خان بلوچ کے چوبارے پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں انہوں نے رکشہ لیا سیدھے کچہری میں عزیز نیازی کے چیمبر پہنچے اور ہمارا پوچھا انہیں بتایا گیا کہ آج نہیں آیا عزیز نیازی نے پوچھا چچاجان خیریت ہے ؟
بولے تمہارے لاڈے نے مولانا کی وفات پر مٹھائی بانٹی ہے ، آپ سے کس نے کہا ؟ کہنے لگے عقیل صدیقی آئے تھے شکوہ کرنے مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ نالائق ملتان آیا ہوا ہے ، جی ہفتہ ہوگیا ہے کل واپس کراچی جائے گا عزیز نیازی نے کہا باباجان کہنے لگے میں تمہارے پاس اس لیئے آیا ہوں کہ وہ نالائق تمہاری بات سنتا مانتا ہے اسے سمجھاو بلکہ ڈانٹو اور یہ کہو کہ جانے سے پہلے مجھے ملکر جائے ، عزیز نیازی نے کہا چچاجان ہم اسے گھر بھیج دیں گے بس آپ نے کہنا کچھ نہیں ، باباجان بولے ٹھیک ہے وعدہ وعید ہوا اور ابو جی وہاں سے چلے گئے
ان کے چلے جانے کے کچھ بعد میں عزیز نیازی کے چیمبر پہنچا تو ماحول معمول سے زیادہ سنجیدہ تھا دوستوں سے سلام دعا کے بعد بیٹھ چکا تو عزیز نیازی نے قدرے خفگی بھرے لہجے میں پوچھا ” شاہ جی وت کہڑا چن چڑھائی ؟” کیا مطلب میں نے کہا ۔ تب اس نے مجھے باباجان کی آمد اور شکایت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ وہ دو وعدے لے کر گئے ہیں ایک یہ کہ تمہاری ڈانٹ ڈپٹ کی جائے دوسرا یہ کہ تم کراچی واپس جانے سے پہلے گھر جاکر والد صاحب سے ملو گے ، عزیز نیازی نے اس دن عزیز جاں دوست اور بھائی ہونے کا پورا پورا حق جتایا بلکہ وصول کیا
مجھے یاد ہے ایک دوبار عارف محمود قریشی نے مداخلت کی کوشش کی تو نیازی بولے یار توں چُپ قریشی ایندا بیڑا غرق کرنڑ اچ توں وی شامل ہیں ، خیر معزرت قبول کرلی گئی اس شرط پر کہ آئندہ غیر سماجی و غیر اخلاقی رویہ اور طرز عمل نہیں اپناوں گا
میں کچہری سے سیدھا خونی برج آبائی گھر پہنچا پتہ چلا ابو ابھی واپس نہیں آئے باورچی خانے میں امی کے پاس بیٹھ کر کھانا کھا رہا کہ میرے کانوں میں ابو کی آواز پڑی امی جان کا نام لے کر کہہ رہے تھے وہ نالائق اپنے تینوں ٹھکانوں پر نہیں ملا (یعنی عزیز نیازی کے چیمبر کے علاوہ وہ عمر علی خان کے دفتر اور حکیم محمود خان کے ہاں بھی چکر لگائے آئے تھے ) ان کی آواز سن کر امی بولیں کھانا کھا رہا ہے بھیجتی ہوں آپ کے کمرے میں
ایک بلند ہوں سنائی دی اب والدہ نے میری کلاس لینا شروع کردی خیر کچھ دیر بعد کھانا کھا کر میں باباجان کے کمرے میں حاضر ہوا مجھے دیکھتے ہی برس پڑے خوب سخت سست سنائیں مولانا کی وفات پر مٹھائی بانٹنے کے عمل پر ان کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا وہ جب غصے میں ہوتے تو کہا کرتے ” بخاری صاحب کوئی ڈھنگ کا کام بھی کرنا ہے یا سرخے دوستوں کے ساتھ لگ کر باپ کو شرمندہ کرواتے رہنا ہے ؟ ” اس دن نجانے کیا سوجی میں نے کہا ابوجان آپ کے جماعت اسلامی میں ہونے کی وجہ سے میں بھی اپنے دوستوں میں شرمندہ ہوتا ہوں ” وہ یک ٹک مجھے حیرانی سے دیکھتے رہے پھر میری والدہ سے (جو کمرے کے دروازے کی اوہٹ میں میری حفاظت کیلئے کھڑی تھیں) بولے فاروق کی امی یہ نہیں سدھرنے کا اسے کہیں تشریف لے جائے
ان کے گھٹنے چھوئے کمرے کے دروازے کے دوسری جانب کھڑی والدہ حضور سے ملا انہوں نے مٹھی میں رکھے روپے میری جیب میں ڈالتے ہوئے دریافت کیا کل واپس چلے جاو گے ؟ جی میں نے عرض کیا ، بولیں صبح ناشتہ کرنے آو گے ، میں نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا کل ناشتہ دوستوں کے ساتھ کروں گا دوپہر میں واپس چلا جاوں گا انہوں نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور والد صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں
اس شام میں رضو شاہ کے گھر روزانہ کی بنیاد پر جمنے والی چنڈال چوکڑی ( یہ نام رضو شاہ کے والد بزرگوار نے رکھا تھا )
پہنچا تو محفل جمی ہوئی تھی
عزیز نیازی نے مجھے دیکھتے ہی سوال کیا ، شاہ گھر گیا ہاویں ؟ جیا مل آیاں اباجی کوں ، اگلا سوال تھا ، جھیڑا تاں نی تھیا ؟ کیناں بس میڈی ماں کوں آکھے نے اینکوں آکھو تشریف گھن ونجے اے نی سدھر سگدا ، اس پر سوالات شروع ہوگئے کیا ہوا پہلے عزیز نیازی نے پھر میں نے سارا قصہ سنایا دوست ہنسنے لگے
قہقہے تھمے تو دوسری باتیں شروع ہوگئیں درمیان میں کوئی دوست پوچھ لیتا ، شاہ جی کل تیاری ہے ؟ جیا میں نیم دلی سے جواب دیتا پھر بات بدل جاتی
رضو شاہ کی گلی میں صفوں پر چنڈال چوکڑی برسہا برس تک جمی اس کے والد بزرگوار بڑے زندہ دل مہمان نواز محبتی شخص تھے گھر سے مغربین کی نماز کیلئے نکلتے ایک طائرانہ نگاہ بیٹے کے دوستوں پر ڈالتے گلی کا ایک چکر لگاکر مسجد کی طرف بڑھنے سے قبل گھر کا دروازہ کھول کر بلند آواز سے کہتے ” رضو دی ما انہاں بالاں کیتے وی روٹی بنڑواویں ” کبھی کبھی نماز سے واپسی پر گھر داخل ہونے سے قبل وہ ایک بار پھر گلی کا چکر لگاتے پھر ہمارے پاس رکتے اور کہتے ” اوئے بالو میں سنڑیں تساں اللہ کوں نیوے منیدے ؟” مری ہوئی آواز میں کوئی نہ کوئی ہاں کہہ دیتا تب وہ پُرجلال آواز میں کہتے ” تہاڈی مرضی رب کوں منوں یا نئیں لیکن اے یاد رکھائے مولا علیؑ حق دا امام ہیوے ” جیا سئیں ہم سارے بلند آواز میں جواب دیتے وہ اطمینان کے ساتھ مسکراتے ہوئے گھر کا دروازہ کھول کر اندر چلے جاتے
رضو شاہ کے گھر والی چنڈال چوکڑی ختم ہوتی تو ہم میں سے کچھ دوست گھروں کو سدھارتے کچھ موٹر سائیکلوں پر قلعہ کہنہ قاسم باغ میں کیفے عرفات جاپہنچتے جہاں رونقیں لگی ہوئی ہوتیں یہاں مختلف الخیال دوستوں سے گفتگو کا نیادور شروع ہوجاتا وہ دن ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ اس دن میرے والد مجھے تلاش کرتے ہوئے کچہری میں عزیز نیازی کے چیمبر پہنچے اور غصے میں تھے یہ خبر پٙر لگا کر اڑی اور شہر بھر میں پھیل گئی تھی
ہرجگہ دوست یہی پوچھتے شاہ جی ، وڈے شاہ ہوریں نال ملاقات تھئی وت کیا مکی ؟ میں تفصیل بتاتا ” یہ نہیں سدھرنے کا ” والی بات پر دوست قہقہہ لگاتے اور کہتے وڈے شاہ جی آہدے تاں ٹھیک ہن ” میں بھی ہنس پڑتا
ان ماہ و سال کا ملتان بہت کھلا ڈلا شہر تھا تنگ نظری اور تعصبات کی چھینٹ تک نہیں پڑی تھی دکھ سُکھ سانجھے ہوتے اور جیب بھی
دوستی پر نظریہ قربان ہوتا نہ نظریہ پر دوستی مثلاً میرے دوعزیز جاں دوست سید امتیاز بخاری اور رشید ترابی اسلامی جمیعت طلباء میں ” فنا ” تھے ہم جماندرو جماعت و جمیعت کے مخالف لیکن کیا مجال کبھی ان کے ماتھوں پر شکن آئی ہو یا دل تنگ ہوا ہو دوستی کی اہمیت ہر چیز پر مقدم رہتی
آج جیسا گھٹیا ماحول بالکل نہیں تھا کہ محض سیاسی اختلافات پر غمی خوشی میں شریک نہ ہوا جائے نہ ہی سیاسی مخالف کو ماں بہن کی گالی دینا اعزاز سمجھتا جاتا تھا یہ گھٹیا سلسلہ نئے سرے سے قومی اتحاد کی تحریک سے شروع ہوا اب تو خیر اس بدزبانی پر ڈالروں کی کمائی ہوتی ہے


