
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز
دوحہ: پاکستان نے ترکی اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں طے پانے والے عبوری مفاہمت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ معاہدہ اس وقت تک مؤثر رہے گا جب تک افغانستان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان نے افغانستان سے فتنہ الخوارج (تحریک طالبان پاکستان) اور فتنہ ال ہندوستان (بلوچستان لبریشن آرمی) سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف واضح اور قابل تصدیق اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
استنبول مشترکہ بیان کا خیرمقدم کیا جاتا ہے کیونکہ یہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان عبوری مفاہمت کو فروغ دیتا ہے، تاہم اس معاہدے کو یکطرفہ جنگ بندی کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ پاکستان کے مطابق، اس معاہدے کی کامیابی کا انحصار افغانستان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف موثر کارروائیوں پر ہے۔
پاکستان نے کہا کہ اگر افغانستان ان اقدامات پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا، یا اگر افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے جاری رہے، تو پاکستان جنگ بندی کی خلاف ورزی تصور کرے گا اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام آپشنز محفوظ رکھے گا۔
پاکستان کے مطابق، استنبول اور دوحہ کی ثالثی کے تحت ہونے والی اس جنگ بندی میں افغانستان کی ذمہ داریوں کا واضح ذکر ہے۔ پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ بندی کا واحد لٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان نے واضح کیا کہ ان کارروائیوں کے شواہد قابل اعتماد ہونے چاہئیں اور ان پر نگرانی کے متفقہ طریقہ کار کے ذریعے تصدیق بھی ضروری ہے۔
پاکستان نے مزید کہا کہ اس جنگ بندی کا مقصد افغان عوام کے لیے امن قائم کرنا ہے، تاہم یہ بات ضروری ہے کہ افغانستان اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھے۔ اگر افغانستان اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو پاکستان کو اپنے اقدامات میں تبدیلی کرنی پڑے گی۔
پاکستان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حکومت اور مسلح افواج اس بات پر متحد ہیں کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے یہ واضح کیا کہ امن اس کی ترجیح ہے، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان اپنی زمین کو دہشت گرد تنظیموں کے لیے پناہ گاہ نہ بننے دے۔
پاکستان کے حکام نے کہا کہ افغان فریق کی جانب سے قابل عمل اور موثر اقدامات کے نتیجے میں جنگ بندی کامیاب ہو سکتی ہے، تاہم اگر افغانستان اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتا، تو پاکستان کے لیے دیگر آپشنز کا دروازہ کھلا رہے گا۔
افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کی اس بات کا ردعمل اہم ہوگا، کیونکہ اگر افغانستان اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرتا ہے تو خطے میں امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے افغان فریق کو نہ صرف رسمی وعدے کرنے ہوں گے بلکہ ان وعدوں کی مستقل بنیادوں پر تکمیل کرنا ہوگی۔
پاکستان نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے ساتھ اس معاہدے کا مقصد ایک طویل مدتی امن کا قیام ہے، جس کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کا فروغ ضروری ہے۔
اس وقت عالمی برادری اور خطے کے ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی اس عبوری مفاہمت کو ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ترکی اور قطر کے ثالثی کے تحت ہونے والے اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ایک نئی سمت دینے کی امید پیدا کی ہے۔
پاکستان نے اس معاہدے میں شامل ہونے کے بعد افغان حکومت سے متوقع توقعات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ معاہدہ دونوں فریقوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ افغانستان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر انہیں نبھائے۔
پاکستان کی جانب سے اس معاہدے کے حوالے سے حوصلہ افزا ردعمل کی توقع کی جا رہی ہے، تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ افغانستان اس معاہدے کی شرائط پر کتنی جلدی عمل کرتا ہے اور آیا دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی امن کے قیام کی راہ ہموار ہوتی ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان نے استنبول میں 6 نومبر سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور اس موقع تک جنگ بندی قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے، یہ اعلان ترکیہ کے وزارتِ خارجہ نے کیا ہے۔
وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو جاری بیان میں کہا تھا کہ تمام متعلقہ فریقین نے جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے نفاذ کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے گا اور حتمی فیصلہ 6 نومبر 2025 کو استنبول میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا جائے گا۔



