
یہ منتقلی ان افغان شہریوں کے لیے جرمنی کے خصوصی داخلہ منصوبے کا حصہ ہے، جو خاص طور پر کمزور یا خطرے سے دوچار ہیں۔ ان میں سابق مقامی عملہ، انسانی حقوق کے محافظ، اور دیگر ایسے افراد شامل ہیں جو تحفظ کے اہل قرار پائے ہیں۔
کابل کی ایک سابقہ اسکول پرنسپل نے، جو ایک سال سے زائد انتظار کے بعد روانہ ہوئیں، ڈی پی اے سے گفتگو میں اطمینان اور تشکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’وہ امید کرتی ہیں کہ ان کی بیٹیاں جرمنی میں اچھی تعلیم حاصل کریں گی۔‘‘
ایک افغان صحافی، جو اپنی اہلیہ اور کم سن بیٹے کے ساتھ سفر کر رہے تھے، نے کہا کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پُرامید ہے، مگر انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ان کے کچھ اہل خانہ کو اسلام آباد میں ہی رکنا پڑا۔

برسوں سے منتظر
کئی افغان خاندان مہینوں بلکہ برسوں سے اسلام آباد میں پھنسے ہوئے ہیں اور اپنے روانگی کے موقع کا انتظار کر رہے ہیں۔
جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت نے مئی میں ان افغانوں کے لیے بنائے گئے دوبارہ آبادکاری پروگرام کو معطل کر دیا تھا جو خاص طور پر خطرے کا شکار سمجھے جاتے تھے۔
یہ پروگرام جرمن اداروں کے سابق مقامی عملے، ان کے اہل خانہ، اور طالبان کے ہاتھوں ممکنہ ظلم و ستم سے خوفزدہ افراد، جیسے وکلا اور صحافیوں، کے لیے تھا۔
پروگرام معطل ہونے کے باوجود کچھ افغان شہریوں کو اب بھی ویزے جاری کیے جا رہے ہیں، خاص طور پر انہیں جنہوں نے جرمن عدالتوں میں اپنے داخلے کے حق کے لیے کامیابی سے مقدمات جیتے ہیں۔
جرمن حکومت کے مطابق تقریباً 1,900 افغان شہری، جنہیں داخلے کی منظوری یا قبولیت کی دستاویزات مل چکی ہیں، اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔
اپنے اتحادیوں کے ساتھ معاہدے میں جرمن حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان جیسے ممالک کے لیے رضاکارانہ وفاقی داخلہ پروگراموں کو ختم کرے گی اور نئے پروگرام متعارف نہیں کرائے گی۔

مکمل اسکریننگ اور جانچ پڑتال
جرمنی میں دوبارہ آبادکاری کے لیے پاکستان سے افغان شہریوں کا پچھلا یعنی تیسرا گروپ ۳۰ اکتوبر کو ہینوور پہنچا تھا۔
اس سے قبل بھی دو افغان گروپ، جو جرمنی کے خصوصی داخلہ پروگرام کے تحت خاص طور پر کمزور یا خطرے سے دوچار افراد میں شامل تھے، ہینوور پہنچائے گئے اور بعد میں ملک کے مختلف حصوں میں منتقل کیے گئے۔
جرمنی کی وزارتِ داخلہ نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ جن افغان شہریوں کو داخلے کی منظوری دی جاتی ہے، ان سب کی مکمل اسکریننگ اور سکیورٹی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
جرمن حکومت کے مطابق، پاکستان میں موجود تقریباً 1,910 افغان شہری جنہیں داخلے کی منظوری یا قبولیت کی دستاویزات دی جا چکی ہیں، ان میں تقریباً 220 سابق مقامی عملے اور ان کے رشتہ دار، 60 انسانی حقوق کے تحفظ کی فہرست میں شامل افراد، 600 عارضی معاونتی پروگرام کے تحت، اور تقریباً 1,030 افغان وفاقی داخلہ اسکیم کے تحت شامل ہیں۔



