
بشتیک (کرغزستان): روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا کہ یوکرین میں جاری جنگ کے خاتمے کے حوالے سے امریکی تجاویز "مستقبل کے معاہدوں کی بنیاد” بن سکتی ہیں، تاہم انہوں نے یوکرین سے "کامیابی” کے لیے اپنے مطالبات میں شدت اختیار کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر یوکرین نے جنگ کے دوران قبضہ کیے گئے علاقوں سے دستبردار ہونے کا فیصلہ نہ کیا تو روس "فوجی ذرائع” سے ان علاقوں کو حاصل کر لے گا۔
جمعرات کو کرغزستان کے دارالحکومت بشتیک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، پوتن نے کہا کہ کریملن اگلے ہفتے امریکی وفد کی سربراہی کرنے والے سٹیو وٹکوف کے ماسکو دورے کے لیے تیار ہے، اور روس "سنجیدہ بات چیت” کے لیے آمادہ ہے۔ تاہم، پوتن نے اس بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ "یوکرین کی فوجیں اپنے زیر قبضہ علاقوں سے نکلے بغیر جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں ہے”، اور اگر یوکرین نے ان علاقوں کو واپس کرنے سے انکار کیا تو روس ان علاقوں کو "فوجی ذرائع” سے حاصل کرنے پر بضد ہے۔
یوکرین کے لیے روس کے مطالبات اور امریکی معاہدہ
یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے روس کے مطالبات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ پوتن نے یوکرین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان علاقوں سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے جو روس نے 2014 سے اپنے زیر قبضہ کیے ہیں، جن میں لوہانسک، ڈونیٹسک، کھیرسن اور زاپوریزہیا شامل ہیں۔ ان علاقوں میں سے بیشتر پر روسی افواج نے ابھی تک مکمل قبضہ نہیں کیا ہے، اور ان علاقوں میں روسی افواج کی موجودگی اور قبضہ ابھی بھی متنازعہ ہے۔
پوتن نے کہا کہ ماسکو اب بھی اپنے قبضہ شدہ علاقوں کو واپس لینے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ "اگر یوکرین خود پیچھے ہٹنے کا فیصلہ نہیں کرتا، تو ہم انہیں فوجی ذرائع سے یہ علاقے حاصل کر لیں گے۔” روس کے یہ مطالبات یوکرین کے لیے ایک اہم سرخ لکیر بن چکے ہیں، اور کیف اور اس کے یورپی اتحادیوں نے اس پر شدید اعتراض کیا ہے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی کا ردعمل
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جمعرات کو کہا کہ ان کا وفد اس ہفتے کے آخر تک امریکی حکام سے ملاقات کرے گا تاکہ جنیوا میں طے شدہ نکات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اپنے رات کے ویڈیو خطاب میں، زیلنسکی نے کہا کہ اگلے ہفتے کے مذاکرات یوکرین کے لیے "اہم” ہوں گے اور ان میں ذاتی طور پر ان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ تاہم، زیلنسکی نے یہ بھی واضح کیا کہ یوکرین کسی صورت میں اپنے قبضے والے علاقوں سے دستبردار نہیں ہو گا۔
روسی افواج کی پیش قدمی اور یوکرین کی مزاحمت
روسی افواج حالیہ ہفتوں میں مشرقی یوکرائنی محاذ پر کچھ کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، خاص طور پر پوکروسک شہر کے اطراف میں، جہاں روسی فوج نے تیزی سے پیش قدمی کی ہے۔ تاہم، امریکہ میں قائم "انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈی آف وار” کے مطابق، روس کی پیش قدمی کی شرح کے اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ "روس کی فوجی فتح ابھی تک یقینی نہیں ہے، اور ڈونیٹسک کے باقی حصے پر تیزی سے روسی قبضہ قریب نہیں ہے۔”
اس ادارے نے کہا کہ یوکرین کے زیر قبضہ علاقے میں روس کی افواج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے، خاص طور پر ان دفاعی قلعوں اور شہروں میں جو یوکرین کی سلامتی کے لیے انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔
امریکی امن منصوبے کا ردعمل
امریکی حکام، بشمول سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ، نے امید ظاہر کی تھی کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے اس ہفتے کوئی "زبردست پیش رفت” ہو گی۔ تاہم، روس نے یوکرین کے خلاف اپنی جنگی حکمت عملی کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اپنی مطالبات کی فہرست کو بڑھا دیا ہے، جس میں یوکرین کے نیٹو میں شمولیت سے روکنے کا بھی مطالبہ شامل ہے۔
امریکہ کی جانب سے تیار کردہ امن منصوبے کی تجویز میں یوکرین سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے اور روس کی جانب سے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر پابندی کے مطالبات شامل تھے۔ پوتن نے اس امریکی تجویز کو تسلیم کیا اور کہا کہ یہ "مستقبل کے معاہدوں کی بنیاد بن سکتی ہے”، تاہم انہوں نے اپنے حتمی موقف کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور کہا کہ "ابھی حتمی معاہدوں کی بات کرنا بے جا ہو گا۔”
روسی مطالبات اور عالمی ردعمل
روس نے یوکرین کے پانچ اہم علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، جن میں بھاری دفاعی قصبے اور شہر شامل ہیں جو یوکرین کے لیے "قلعہ پٹی” کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، یوکرین اور اس کے اتحادیوں نے ان روسی مطالبات پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور یوکرین کی سرزمین سے روسی افواج کا انخلاء اور اس کی خودمختاری کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو پوتن کے بیانات سے یہ واضح ہو گیا کہ روس ابھی تک اپنے مطالبات میں کوئی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہے، اور یوکرین کے علاقے میں روسی فوج کی موجودگی اور اس کی قبضہ گیری کے بارے میں جاری تنازعہ اب تک حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
نتیجہ
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی شدت اور پیچیدگی نے عالمی امن کے لیے ایک سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ روس کے سخت مطالبات اور یوکرین کی جانب سے ان کا مقابلہ، دونوں ممالک کے درمیان ایک مستحکم امن معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ امریکی حکام امن کے لیے مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یوکرین کی علاقائی سالمیت اور روس کے عزائم کے درمیان ٹکراو کا مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت روسی صدر پوتن نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک یوکرین کے علاقے روس کے قبضے میں نہیں آ جاتے، اس جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔



