
طالبان تک ہندوستانی رسائی پاکستان اور افغان کشیدگی کو بڑھا رہی ہے
ٹی ٹی پی، جو ایک دہشت گرد تنظیم ہے، افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر چکی ہے
وائس آف جرمنی بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگیاں اور افغانستان میں طالبان کی حکومتی پوزیشن کے اثرات خطے کی سلامتی پر سنگین نتائج مرتب کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کی مشرقی سرحد پر طالبان تک ہندوستانی رسائی اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی نے علاقے میں نئی تشویش پیدا کی ہے۔
پاکستانی سرحد پر مہلک حملے اور جوابی کارروائی کی دھمکی
افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں تشویش ناک صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے جب کابل نے منگل کو پاکستان پر مشرقی افغانستان میں فضائی حملے کرنے کا الزام لگایا، جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے جن میں نو بچے بھی شامل تھے۔ افغانستان کے حکام نے کہا کہ یہ حملے پاکستانی نیم فوجی دستوں پر کیے گئے حملے کا بدلہ تھے، جس میں پشاور کے قریب تین اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان نے ان حملوں کی ذمہ داری سے انکار کیا ہے، تاہم افغان حکام نے پاکستان کو جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ پاکستان نے افغان حکومت کی طرف سے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کا کوئی تعلق پاکستانی فورسز سے نہیں تھا، بلکہ یہ کارروائیاں ممکنہ طور پر طالبان مخالف گروپوں کی جانب سے کی گئی ہیں۔
طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات
پاکستان نے گزشتہ کچھ مہینوں میں افغان طالبان پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دے رہے ہیں اور انہیں پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی، جو ایک دہشت گرد تنظیم ہے، افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر چکی ہے۔ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، اور یہ گروپ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ہندوستان کی طالبان تک رسائی اور پاکستان کی تشویش
پاکستان کے لیے ایک اور پریشانی کا باعث ہندوستان کا طالبان کے ساتھ بڑھتا ہوا تعلق ہے۔ بھارتی حکومت نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات میں کابل میں ایک سفارت خانہ قائم کرنا، ایئر فریٹ کوریڈور قائم کرنا اور طالبان کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھانا شامل ہے۔ ہندوستان نے طالبان کے زیر انتظام حکومت کو باضابطہ تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے، تاہم افغانستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اس نے متعدد عملی اقدامات کیے ہیں۔
پاکستانی حکام نے اس تعلقات کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے اور اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان اور طالبان کے بڑھتے ہوئے تعلقات اسلام آباد کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتے ہیں۔ ایک سینئر پاکستانی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ "ہمیں اس صف بندی پر گہری تشویش ہے، کیونکہ اس سے خطے میں ایک نیا تنازعہ جنم لے سکتا ہے۔”
طالبان کی معیشتی مشکلات اور نئے تجارتی راستے
طالبان حکومت، جو 2021 میں اقتدار میں آئی تھی، اب افغانستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے۔ اس کے لیے اس نے ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان سے تعلقات میں مشکلات کے بعد، طالبان نے دیگر ممالک کے ساتھ نئے تجارتی راستے تلاش کیے ہیں، جن میں ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کی معاشی مشکلات دراصل ان کے اپنے اقدامات کا نتیجہ ہیں اور ان کے زیر اثر ملک کی معیشت میں بہتری کی بجائے مزید گراوٹ آئی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے طالبان حکومت کو "رگ ٹیگ گروپ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد طالبان پر اعتماد کرنے کی غلطی نہیں کرے گا۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحدی کشیدگیاں
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگیاں بھی بڑھ رہی ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں اقتصادی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ پاکستان نے افغان سرحدی گزرگاہوں کو بند کر دیا ہے، جس سے افغان کسانوں اور تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ افغان تاجروں کا کہنا ہے کہ بند سرحدوں کی وجہ سے ان کی فصلیں سڑ گئی ہیں اور تجارت رک گئی ہے۔ خان جان الکوزئی، ایک افغان تاجر نے کہا، "اس سے دونوں طرف تکلیف ہوتی ہے، پاکستان سے افغانستان کو سیمنٹ کی برآمدات رک چکی ہیں، جس سے پاکستانی ملازمتوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔”
ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی شورش
پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ایک اور سنگین مسئلہ بن چکی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، اور ایک خودکش بم دھماکے میں 12 افراد کی ہلاکت نے پاکستان کے اندر مزید خوف و ہراس پیدا کیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی ہے، جس کے نتیجے میں یہ دہشت گرد گروپ سرحدی علاقے میں بڑھتے ہوئے حملے کر رہا ہے۔
پاکستان کا موقف اور عالمی ردعمل
پاکستان نے گزشتہ تین سالوں میں 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے تاکہ طالبان پر دباؤ ڈال کر ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کی جا سکے۔ افغان حکومت اور پاکستانی حکام کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کا اثر دونوں ممالک کے عوام پر بھی پڑ رہا ہے، اور سرحدی مسائل اور دہشت گردی کے واقعات نے دونوں ممالک کی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے۔
نتیجہ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی موجودہ صورتحال ایک پیچیدہ چیلنج بن چکی ہے۔ طالبان کے ساتھ ہندوستانی تعلقات اور ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں پاکستان کے لیے نئے خطرات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحدی مسائل اور اقتصادی مشکلات نے دونوں ممالک کے عوام کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کی کوششیں جاری ہیں، تاہم دونوں ممالک کے درمیان مستقل امن اور استحکام کے لیے مزید جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔



