
انسانی حقوق کاعالمی دن….اسلم ندار سلہری
ملک میں عدم برداشت تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اختلافِ رائے دشمنی بن چکی ہے۔ سیاسی ماحول میں نفرت، الزام تراشی، انتقامی رویے اور بداعتمادی نے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیا ہے
ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن پوری دنیا کو یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ انسان اس کی حرمت، اس کی آزادی اس کا وجود اور اس کی عزت کسی ریاست کی مراعات نہیں بلکہ فطری پیدائشی اور ناقابل تنسیخ حقوق ہیں۔افسوس کہ اکیسویں صدی کی ترقی کے باوجود آج انسانیت کے بنیادی اصول بدترین طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔عالمی طاقتیں مفادات کے بوجھ تلے انسانیت کی آواز کو کچل رہی ہیں،اور اقوام متحدہ جسے انسانی حقوق کا عالمی محافظ سمجھا جاتا تھا،مسلسل بے بسی اور ناکامی کی تصویر بن چکا ہے۔خاص طور پر مسلم دنیا میں ہونے والی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے اس ادارے کے کردار پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔فلسطین میں نسل کشی کے مناظر پوری دنیا دیکھے۔اسپتال تباہ،اسکول برباد،خوراک اور ادویات کی راہ بند،معصوم بچوں کے لاشے ملبے سے نکالے جا رہے ہیں اور دنیا کا ضمیر خاموش ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادیں محض کاغذی اعلان بن کر رہ گئی ہیں۔کشمیر میں بھارتی جبر دہائیوں سے جاری ہے،لیکن کشمیری آج بھی ان بنیادی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے خود تسلیم کیا تھا۔ وہاں کا لاک ڈاؤن،میڈیا پر پابندی، سیاسی قیدیوں کی طویل اسیری اور ماورائے عدالت کارروائیاں عالمی اداروں کی نااہلی اور غیرسنجیدگی کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔سوڈان میں خانہ جنگی کے باعث لاکھوں افراد بھوک،بیماری،بے گھری اور خونریزی کا سامنا کر رہے ہیں مگر عالمی ضمیر تاحال خوابِ غفلت میں ہے۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ظلم کی تاریخ بھی دنیا کے سامنے ہے۔نسل کشی قتل عام گھروں کی تباہی اور بستیوں کو جلانے کے باوجود کسی طاقت نے مظلوموں کے لیے انصاف فراہم کرنے کا حقیقی اقدام نہیں کیا۔مسلم دنیا کے ان تمام سانحات نے ثابت کر دیا ہے کہ عالمی طاقتوں کے اصول انسانیت نہیں بلکہ مفادات ہیں، اور اقوام متحدہ کا نظام کمزورمتعصب اورغیر مؤثر ہو چکا ہے۔پاکستان کے اندرونی حالات بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کبھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں، کبھی ادارہ جاتی رویّوں کے باعث، اور کبھی معاشی زبوں حالی کے نتیجے میں۔عام آدمی آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔صاف پانی، گیس،بجلی،معیاری تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضرورتیں اکثریت کے لیے خواب بن چکی ہیں۔مہنگائی نے عوام سے زندگی کی خوشیاں چھین لی ہیں۔ انصاف کا حصول مشکل سے مشکل تر ہو چکا ہے، عام شہری تھانے، کچہری، اسپتال اور دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک چکا ہے۔
ملک میں عدم برداشت تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اختلافِ رائے دشمنی بن چکی ہے۔ سیاسی ماحول میں نفرت، الزام تراشی، انتقامی رویے اور بداعتمادی نے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔ ناانصافی کا یہ عالم ہے کہ طاقت ور کے لیے قانون کچھ اور ہے اور کمزور کے لیے کچھ اورمیڈیا پر دباؤ،اظہار کی آزادی کی کمی اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ غیر مناسب سلوک ہمارے سماجی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ جمہوریت اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب شہری آزاد ہوں، انصاف شفاف ہو اور لوگوں کو بنیادی حقوق میسر ہوں مگر بدقسمتی سے ہمارا سماج ان اصولوں سے دور ہوتا جارہا ہے۔
دینِ اسلام انسانی حقوق کے معاملے میں سب سے جامع تعلیمات فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک میں انسانیت کو ایک جان، ایک خاندان اور ایک وحدت قرار دیا گیا ہے۔ حضور نے حجۃ الوداع کے خطبے میں اعلان فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں اصل معیار تقویٰ ہے۔ سلام کسی بے گناہ کو تکلیف دینے،ظلم کرنے،حق چھیننے اور کمزور کو دبانے کی سخت مذمت کرتا ہے۔ یتیم کے مال پر ہاتھ ڈالنا حرام ہے، مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کی ہدایت ہے،عورت کی عزت اور حق کا مکمل تحفظ دین کا بنیادی حصہ ہےاور اقلیتوں کو مکمل مذہبی، معاشرتی اور قانونی تحفظ دینا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان روشن اصولوں سے مسلسل دور ہوتا جارہا ہے۔آج جب دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ شدت اختیار کر چکا ہے، اور پاکستان کے اندر بھی عدم برداشت، ناانصافی غربت، مہنگائی اور سیاسی تقسیم نے قوم کو کمزور کر دیا ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بطور ریاست اور بطور قوم خود احتسابی کریں۔ طاقت کے بجائے قانون کی حکمرانی نفرت کے بجائے مکالمہ انتقام کے بجائے انصاف جبر کے بجائے آزادی اور مفادات کے بجائے انسانیت کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہی وہ راستہ ہے جو دنیا کے مظلوموں کے لیے امید بن سکتا ہے اور ہمارے اپنے وطن کو ایک منصفانہ،مہذب اور باوقار معاشرہ بنا سکتا ہے۔انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا نے انسان کو مقدم نہ رکھا، اگر ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی اگر انصاف کو عملی بنیادیں نہ فراہم کی گئیں تو ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہ جائیں گے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم انسانیت کا ساتھ دیں کمزور کا ہاتھ تھامیں، معاشرے میں برداشت پیدا کریں اور انصاف کو مضبوط کریں یہی وہ راستہ ہے جو دنیا کو امن دے سکتا ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے روشن مستقبل کا ضامن بن سکتا ہے



