تحریک انصاف کی مثال ڈالر جیسی، کوئی چھوڑ کر نہیں جا رہا: شوکت یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر برائے پارلیمانی امور شوکت یوسفزئی نے پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کی پارٹی چھوڑنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صوبے میں تحریک انصاف کی مثال ڈالر جیسی ہے، پارٹی چھوڑ کر کوئی ممبر نہیں جانے والا۔‘
خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر برائے پارلیمانی امور شوکت یوسفزئی نے پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کی پارٹی چھوڑنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صوبے میں تحریک انصاف کی مثال ڈالر جیسی ہے، پارٹی چھوڑ کر کوئی ممبر نہیں جانے والا۔‘
سابق وزیراعظم عمران خان کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کے بعد یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ خیبرپختونخوا کے کچھ ارکان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم صوبائی وزیرشوکت یوسفزئی نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ یہ سب افواہیں اپوزیشن پھیلا رہی ہے۔‘
انہوں نے اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے سے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں تمام اراکین چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو فیصلے کا اختیار دے چکے ہیں۔ وہ جو فیصلہ کریں گے ہم من و عن عمل کریں گے۔‘
شوکت یوسفزئی کے بقول ’اس وقت یہ فیصلہ کرنا سیاسی طور پر ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔ صوبے میں ہماری اکثریت ہے اور بہت سے منصوبوں پر کام ہورہا ہے مگر جہاں ملک کی بات آجائے تو سیاست نہیں دیکھی جاتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ملکی مفاد اسی میں ہے کہ فوری انتخابات کروائے جائیں، معاشی صورتحال دیکھ لیں مہنگائی کی وجہ سے ہر طبقہ پریشان ہے۔‘
ایک طرف پی ٹی آئی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ کر چکی ہے تو دوسری طرف دونوں صوبوں میں ترقیاتی فندز کا اجرا بھی کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے بتایا کہ ’اگر ہم حکومت سے چلے بھی گئے تو ترقیاتی کام ہوتے رہیں گے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا فنڈز جاری ہو چکے ہیں۔‘
پشاور کے سینیئر صحافی فدا عدیل سمجھتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلٰی سمیت بیشتر اراکین چاہتے ہیں کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلٰی محمود خان سمیت بیشتر اراکین اسمبلی یہ رائے رکھتے ہیں کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے کیونکہ متعدد منصوبے اور ترقیاتی سکیموں پر کام جاری ہے اور ہر ممبر یہ خواہش رکھتا ہے کہ اگلے الیکشن سے پہلے تمام کام پایۂ تکمیل تک پہنچے۔‘
صحافی فدا عدیل کے مطابق ’اراکین اسمبلی کو یہ خدشات بھی ہیں کہ اگر آخری سال میں حلقے میں کام نہ ہوئے تو پھر کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے۔‘
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے ’حقیقی آزادی‘ مارچ کی کال دی تو یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
جب 26 نومبر کو انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ سنایا تو یہ ان کے سیاسی مخالفین کے لیے بھی حیران کُن تھا تاہم انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
عمران خان نے حکومت کو یہ تنبیہہ کی تھی کہ ’الیکشن کی تاریخ دیں نہیں تو اسی مہینے اسمبلیاں توڑ دیں گے۔‘