بین الاقوامی

فلسطین کی حمایت میں ایک علاقائی بلاک ابھرنا شروع ہو سکتا ہے

عرب نیوز کے مطابق یہ عمل 31 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا جب بولیویا نے غزہ پر حملوں کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا۔

غزہ میں جنگ کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور لاطینی امریکہ کے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ فلسطین کی حمایت میں ایک علاقائی بلاک ابھرنا شروع ہو سکتا ہے جو ایک غیرمعمولی پیش رفت ہو گی۔
عرب نیوز کے مطابق یہ عمل 31 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا جب بولیویا نے غزہ پر حملوں کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا۔
بولیویا کے شہر سانتا کروز میں ایک اسلامی مرکز کی قیادت کرنے والے ماہر سیاسیات فلسطینی نژاد شیخ عیسیٰ عامر کویوڈو نے بتایا کہ حکومت کے اس فیصلے کا ملک کے مسلمانوں نے بڑی خوشی سے خیرمقدم کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ممالک انسانیت کے خلاف جرائم کرتے ہیں، تو ان پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے۔ یہ اندھا دھند فضائی حملے بند ہونے چاہئیں۔‘
انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بولیویا غزہ کے لیے 73 ٹن خوراک بھیج رہا ہے اور امید ظاہر کی کہ دیگر اقوام بھی اس کی پیروی کریں گی۔
بولیویا کے اعلان کے فوراً بعد چلی اور کولمبیا کے صدور نے اسرائیل سے اپنے سفیروں کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا۔
31 اکتوبر کو اپنے ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر چلی کے صدر گیبریل بورک نے غزہ میں اسرائیل کی ’انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی قانون کی ناقابل قبول خلاف ورزیوں‘ کا حوالہ دیا۔
انہوں نے لکھا کہ ’چلی اس کی مذمت کرتا ہے اور اس طرح کے فوجی آپریشن کو انتہائی تشویش کے ساتھ دیکھتا ہے، جو اس وقت غزہ میں شہری آبادی کے لیے اجتماعی سزا ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کا احترام نہیں کرتے جس کی وجہ سے آٹھ ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔‘
چلی میں مشرق وسطیٰ سے باہر دنیا کی سب سے بڑی فلسطینی آبادی ہے، جو چھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ ایک منظم اور بااثر کمیونٹی ہے۔
لیکن پروفیسر پابلو الواریز کابیلو، جو سان تیاگو کی ڈیاگو پورٹیلز یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکی تعلقات کے ماہر ہیں، نے کہا کہ چلی شاید تعلقات منقطع نہیں کرے گا کیونکہ ’اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اہم ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد ایک انٹرویو میں چلی کے صدر نے کہا کہ انہوں نے اس ملاقات میں غزہ میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے پر اسرائیل کا ردعمل غیر متناسب ہے۔
اسی طرح 31 اکتوبر کو کولمبیا کی حکومت کے ایک بیان میں کہا گیا کہ بوگوٹا ’غزہ میں گنجان آباد علاقوں میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔‘
سات اکتوبر کے بعد سے صدر گستاو پیٹرو نے ایکس (ٹوئٹر) پر درجنوں پوسٹس کی ہیں جن میں اسرائیل کے غزہ حملے پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے اسرائیل کا موازنہ نازیوں سے بھی کیا۔
اسرائیل نے بعد ازاں کولمبیا کو فوجی ساز و سامان کی برآمدات معطل کر دی تھیں، لیکن پیٹرو نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ تل ابیب سے تعلقات منقطع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یکم نومبر کو ارجنٹائن اور میکسیکو نے جبالیہ پناہ گزین کیمپ اور غزہ کے دیگر مقامات پر اسرائیل کی بمباری پر تنقید کی، جو اس لیے اہم ہے کیونکہ ان ممالک کو اسرائیل کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
3 نومبر کو ہنڈورس نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلائے گا۔ وزیر خارجہ ایڈورڈو اینریک رینا نے ’غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہری آبادی کو متاثر کرنے والی سنگین انسانی صورتحال‘ کا حوالہ دیا۔
ہنڈورس کے اخبار ’لا پرینسا‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں نائب وزیر خارجہ انتونیو گارسیا نے کہا کہ یہ فیصلہ ممکنہ سفارتی اقدامات کا ایک حصہ ہے، اور حکومت کے ’فلسطینی شہری آبادی کے اندھا دھند قتل پر تشویش‘ کی عکاسی کرتا ہے۔
وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اس کو ’نسل کشی‘ قرار دیا، لیکن بعد میں اس اصطلاح کو ہٹا دیا گیا۔
ارجنٹائن میں پیدا ہونے والے فلسطینی کنفیڈریشن آف لاطینی امریکہ اور کیریبین کے صدر رافیل مسری نے کہا کہ برازیل خطے میں سب سے اہم ملک ہے، اور اگر صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا اسرائیل کے بارے میں زیادہ تنقیدی موقف اختیار کر سکتے ہیں، تو مزید ممالک اس ابھرتے ہوئے فلسطینی حامی بلاک کی طرف راغب ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’لولا اسرائیل کے اقدامات کے بارے میں انٹرویو دیتے رہے ہیں اور ان پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے چلی، کولمبیا اور اسی طرح کے دباؤ میں، وہ بلاک میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں۔‘
برازیل میں پیدا ہونے والے امیر مراد نے کہا کہ برازیل کے صدر نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو منظور کرنے کی کوشش میں کردار ادا کیا ہے جس میں فوری جنگ بندی کا کہا گیا (امریکہ نے ان میں سے ایک کو ویٹو کر دیا)، لیکن برازیل اس سے کچھ زیادہ بھی کر سکتا ہے۔
امیر مراد کا کہنا تھا کہ ’ایسے بہت سے سفارتی اقدامات ہیں جن کا استعمال کیا جا سکتا ہے، جن کا آغاز مشاورت کے لیے سفیر کو واپس بلانے اور تعلقات منقطع کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔‘ مراد نے کہا کہ لولا 2010 میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے پہلے لاطینی امریکی رہنما تھے، اور ان کی وجہ سے بہت سارے دوسرے ممالک نے بھی ایسا ہی کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’شاید اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔‘
لیکن کچھ تجزیہ کار برازیلی صدر کے صورتحال سے نمٹنے کے بارے میں مایوسی کا شکار ہیں۔ برازیل اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات کے ماہر تاریخ دان توفی کائیروز کا کہنا تھا کہ ’یہ لولا کے لیے زیادہ سے زیادہ شرمندگی کا باعث بنتا جا رہا ہے کہ لاطینی امریکہ کے اہم ممالک فلسطین کی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ ایسا نہیں کر رہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب ایسا لگتا ہے کہ وہ دوسرے رہنماؤں کی پیروی کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔‘
کائیروز نے کہا کہ یہ ’پریشان کن‘ ہے کہ برازیل اسرائیلی فوجی ساز و سامان اور ٹیکنالوجی کی درآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تاہم الواریز نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ لولا ایک ’غیر منسلک رہنما‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ فلسطین کے مسئلے پر سفارتی تبدیلی کے خواہاں ممالک کے ایک گروپ کی سربراہی کریں، جس سے ’اقوام متحدہ پر مزید دباؤ اور طاقت کی تقسیم میں زیادہ توازن پیدا ہو سکتا ہے۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button