یورپاہم خبریں

سلووینیا نے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا: یورپ میں اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف سفارتی دباؤ میں اضافہ

جہاں 90 رکنی ایوان میں سے 52 ارکان نے اس فیصلے کی حمایت کی، جبکہ اپوزیشن کے بیشتر ارکان غیر حاضر رہے۔

لوبیانا (بین الاقوامی نیوز ڈیسک) — اسپین، آئرلینڈ اور ناروے کے بعد سلووینیا نے بھی فلسطین کو ایک آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے، جسے مشرق وسطیٰ میں جاری خونریزی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف یورپی سطح پر ایک اہم سفارتی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

سلووینیا کی پارلیمنٹ نے منگل کے روز ووٹنگ کے ذریعے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی باضابطہ منظوری دی، جہاں 90 رکنی ایوان میں سے 52 ارکان نے اس فیصلے کی حمایت کی، جبکہ اپوزیشن کے بیشتر ارکان غیر حاضر رہے۔


"دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے” — سلووینیا کا مؤقف

سلووینیا کی حکومت نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

"دو ریاستی حل ہی مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن قائم کرنے کا واحد راستہ ہے، اور فلسطینی عوام کو ان کے حق خود ارادیت سے مزید محروم رکھنا اخلاقی اور قانونی طور پر ناقابل قبول ہے۔”

وزیراعظم روبرٹ گولوب نے دارالحکومت لوبیانا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

"یہ فیصلہ امن کا پیغام ہے، ہم اسرائیل اور حماس کے درمیان دشمنی کے فوری خاتمے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ سلووینیا اس عمل کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور متوازن امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔


سفارتی علامت: فلسطینی پرچم سلووینیا کی سرکاری عمارت پر لہرا دیا گیا

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد سلووینیا کی حکومت نے لوبیانا میں واقع اپنی سرکاری عمارت کے سامنے فلسطین کا پرچم بھی لہرایا، جو سلووینیا اور یورپی یونین کے پرچموں کے ساتھ نصب کیا گیا۔ اس اقدام کو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے مظہر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔


اس فیصلے کا پس منظر: 7 اکتوبر کے بعد بڑھتا دباؤ

یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اقدامات ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر انتہائی شدید اور بلااشتعال فوجی بمباری کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

اسرائیل کے اس حملے میں اب تک:

  • 36,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں

  • لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں

  • اسپتال، اسکول، مساجد اور بنیادی ڈھانچے کا بیشتر حصہ تباہ ہو چکا ہے

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ بھی غزہ میں انسانی المیے پر شدید تشویش کا اظہار کر چکی ہیں، لیکن اسرائیل کی پالیسیوں پر مؤثر دباؤ ڈالنے میں ناکامی پر یورپی ممالک نے یک طرفہ اقدامات کا راستہ اپنانا شروع کر دیا ہے۔


28 مئی: پہلا سفارتی دھچکہ، تین یورپی ممالک نے فلسطین کو تسلیم کیا

سلووینیا کے حالیہ فیصلے سے قبل 28 مئی 2025 کو تین یورپی ممالک — اسپین، آئرلینڈ اور ناروے — نے فلسطین کو باقاعدہ طور پر ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ اس کے ردعمل میں اسرائیل نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا تھا۔

اب سلووینیا کے فیصلے کے بعد اسرائیلی حکومت کی خارجہ پالیسی پر دباؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔


یورپی یونین میں تقسیم واضح

یورپی یونین کے 27 رکن ممالک میں فلسطین کو تسلیم کرنے کے معاملے پر گہری تقسیم موجود ہے:

✅ فلسطین کو پہلے ہی تسلیم کرنے والے ممالک:

  • سویڈن

  • قبرص

  • ہنگری

  • جمہوریہ چیک

  • پولینڈ

  • سلوواکیہ

  • رومانیا

  • بلغاریہ

📌 ممکنہ مستقبل کے حمایتی:

  • مالٹا نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی جلد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتا ہے۔

  • برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی حمایت پر غور کا عندیہ دیا ہے۔

❌ مخالف یا غیر فیصلہ کن ممالک:

  • فرانس کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔

  • جرمنی اور ڈنمارک کا کہنا ہے کہ دو ریاستی حل صرف مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے، جبکہ ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کرنے کا بل مسترد کر دیا تھا۔


عالمی سطح پر تیزی سے بدلتا رجحان

اب تک دنیا کے 140 سے زائد ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ حاصل ہے، لیکن مکمل رکنیت اسرائیل کے قریبی اتحادی، بالخصوص امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے مؤخر ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے ممالک اب یک طرفہ تسلیم شدگی کے ذریعے فلسطینی عوام کے لیے عالمی سطح پر سیاسی اور اخلاقی حمایت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


سلووینیا کا فیصلہ ایک اہم سفارتی سنگ میل

سلووینیا کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ محض ایک علامتی قدم نہیں بلکہ اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھانے کی یورپی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بگڑتے ہوئے حالات میں یہ فیصلہ اسرائیلی پالیسیوں کے لیے نئی چیلنجنگ صورتِ حال پیدا کر سکتا ہے، جبکہ فلسطینی عوام کے لیے یہ عالمی سطح پر حمایت کے دائرے میں توسیع کی ایک اور علامت ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button