
نیتن یاہو کا غزہ میں نیا فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان: ’جنگ ختم کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے‘
"ان دونوں علاقوں میں حماس کی عسکری قوت اب بھی باقی ہے، اور جب تک یہ گڑھ ختم نہیں ہوتے، جنگ کا اختتام ممکن نہیں۔"
یروشلم: اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں حماس کے باقی ماندہ مضبوط گڑھوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایک نیا فوجی آپریشن شروع کرے گا، جس کا مقصد "اس جنگ کا جلد از جلد خاتمہ” ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی مختصر مگر فیصلہ کن ہو گی اور یہ غزہ کے سٹی اور وسطی علاقوں میں حماس کی موجودگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش ہوگی۔
اتوار کو یروشلم میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے واضح الفاظ میں کہا کہ:
"یہ جنگ کو ختم کرنے کا بہترین اور تیز ترین راستہ ہے۔ اسرائیل کے پاس اب کوئی اور آپشن نہیں بچا کہ وہ یہ جنگ مکمل کرے اور حماس کی مکمل شکست کو یقینی بنائے۔”
آپریشن کی تفصیلات
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی فوج اس وقت غزہ کے تقریباً 70 سے 75 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کر چکی ہے، تاہم دو اہم علاقے — غزہ سٹی اور وسطی کیمپ — اب بھی حماس کے زیر اثر ہیں۔ ان کے بقول:
"ان دونوں علاقوں میں حماس کی عسکری قوت اب بھی باقی ہے، اور جب تک یہ گڑھ ختم نہیں ہوتے، جنگ کا اختتام ممکن نہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن کے دوران محفوظ راہداریاں اور علاقے قائم کیے جائیں گے تاکہ عام شہری متاثرہ علاقوں سے بحفاظت نکل سکیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس دعوے پر خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، کیونکہ ماضی میں بھی ایسے اقدامات ناکافی اور غیر مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔
داخلی مخالفت اور عوامی احتجاج
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی معاشرہ خود شدید تقسیم کا شکار ہے۔ ایک جانب وہ افراد ہیں جو جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی بازیابی کے معاہدے کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ایسے حلقے موجود ہیں جو حماس کی مکمل تباہی کے بغیر جنگ کو نامکمل سمجھتے ہیں۔
نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ کی جانب سے جنگ کو وسعت دینے کے فیصلے کے بعد تل ابیب میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ طویل جنگ کی وجہ سے اسرائیلی سوسائٹی، معیشت اور عالمی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایک مظاہر کا کہنا تھا:
"ہم امن چاہتے ہیں، جنگ نہیں۔ ہم اپنے یرغمالیوں کو واپس چاہتے ہیں، نہ کہ مزید خونریزی۔”
حماس کا ردعمل: ’نیتن یاہو مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں‘
اسرائیلی وزیراعظم کی پریس کانفرنس پر فلسطینی تنظیم حماس نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ حماس کے سیاسی بیورو کے میڈیا ایڈوائزر طاہر النونو نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"نیتن یاہو کی پریس کانفرنس جھوٹ کا ایک سلسلہ ہے۔ وہ مسلسل دھوکہ دہی، حقائق کو چھپانے اور اسرائیلی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سچ کا سامنا کرنے کے قابل نہیں۔”
حماس کے مطابق، اسرائیلی قیادت زمینی حقائق کو چھپا رہی ہے، اور نہتے شہریوں پر بمباری کو عسکری کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس
نیتن یاہو کی پریس کانفرنس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غزہ کی صورتحال پر ہونے والے اہم اجلاس سے صرف ایک دن قبل کی گئی، جسے بین الاقوامی مبصرین ایک "پیشگی بیانیہ” کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ عالمی برادری کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے، مگر اس کے لیے "فیصلہ کن اقدام” ضروری ہے۔
بین الاقوامی تنقید اور انسانی بحران
غزہ میں جاری جنگ نے اب تک ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں لی ہیں، جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور درجنوں ممالک اسرائیل پر فوجی کارروائیوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگا چکے ہیں۔
عالمی برادری کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی کرے اور غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنائے۔
جنگ کا اختتام یا نئی شروعات؟
نیتن یاہو کا نیا آپریشن غزہ میں ممکنہ طور پر آخری مرحلہ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ اس اقدام سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔ اگرچہ اسرائیلی حکومت اسے جنگ کے خاتمے کی طرف قدم قرار دے رہی ہے، مگر ماہرین کے مطابق اس سے تشدد کا نیا دور شروع ہونے کا بھی خدشہ ہے۔